فلسطینی ’چلتی پھرتی لاشوں‘ جیسے دکھائی دیتے ہیں: اقوام متحدہ

غزہ میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) کے سربراہ فلپ لازارینی نے بتایا کہ انسانی امداد کے کارکن ایسے بچوں کو دیکھ رہے ہیں جو ’انتہائی لاغر، کمزور اور فوری علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے شدید خطرے میں ہیں۔‘

اقوام متحدہ کے ایک عہدےدار نے جمعرات کو کہا ہے کہ فلسطینی ’چلتی پھرتی لاشوں‘ جیسے دکھائی دینے لگے ہیں۔ اسی دوران سر کیر سٹارمر نے غزہ میں جاری قحط اور بھوک کو ’ناقابل بیان اور ناقابل دفاع‘ قرار دیا۔

غزہ میں اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (یو این آر ڈبلیو اے) کے سربراہ فلپ لازارینی نے بتایا کہ انسانی امداد کے کارکن ایسے بچوں کو دیکھ رہے ہیں جو ’انتہائی لاغر، کمزور اور فوری علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے شدید خطرے میں ہیں۔‘

برطانوی وزیراعظم جمعے کو فرانس اور جرمنی کے ساتھ ایک ہنگامی فون کال کے دوران امداد اور جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم انسانی المیے کا سامنا کر رہے ہیں۔ غزہ میں جو مصائب اور قحط سامنے آ رہا ہے وہ ناقابل بیان اور ناقابل دفاع ہے۔ حالات پہلے بھی سنگین تھے مگر اب یہ انتہائی حدوں کو پہنچ چکے ہیں اور مزید بدتر ہو رہے ہیں۔‘

سر کیئر سٹارمر کا یہ بیان فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کے اس اعلان سے چند گھنٹے پہلے سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ فرانس ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔

حالیہ دنوں میں غزہ میں بھوک سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ فلسطینی محکمہ صحت کے مطابق اب تک ریکارڈ ہونے والی بھوک سے 113 اموات میں سے زیادہ تر حالیہ ہفتوں میں ہوئیں، جن میں سے 82 بچے شامل ہیں۔

اسرائیل نے غزہ میں خوراک اور امداد کے داخلے پر سخت پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ اس سال کے آغاز میں 11 ہفتے کی مکمل ناکہ بندی کے بعد اب روزانہ صرف گنتی کے چند امدادی ٹرکوں کو داخلے کی اجازت ہے۔ اقوام متحدہ کے حکام کے مطابق غزہ تک پہنچنے والی امداد ضرورت کے مقابلے میں ’اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر‘ ہے۔

سر کیر کا کہنا ہے کہ ’ہم سب متفق ہیں کہ اسرائیل کو فوری طور پر راستہ بدلنا چاہیے اور انتہائی ضروری امداد کو بلاتاخیر غزہ میں داخلے کی اجازت دینی چاہیے۔‘

لازارینی نے بتایا کہ یو این آر ڈبلیو اے کے ایک کارکن نے غزہ کے لوگوں کو یوں بیان کیا کہ ’وہ نہ زندہ ہیں نہ مردہ، وہ چلتی پھرتی لاشیں ہیں۔‘ انہوں نے کہا کہ ادارے کے پاس اردن اور مصر میں خوراک اور طبی سامان سے لدے تقریباً چھ ہزار ٹرک موجود ہیں جنہیں اب تک غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ملی۔

’ انہوں نے کہا کہ ’خاندان اب مزید برداشت نہیں کر پا رہے۔ ان کی ہمت جواب دے چکی ہے اور ان کا وجود خطرے میں ہے۔‘

اسرائیلی فوج نے ان سینکڑوں فلسطینیوں کو قتل کیا جو امداد کے محدود ٹرکوں سے خوراک حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان اموات کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے کئی اتحادی ممالک بھی اس پر تنقید کر چکے ہیں۔

بدھ کو انسانی حقوق کی 100 سے زائد تنظیموں اور فلاحی اداروں نے ایک خط میں امداد بڑھانے کا مطالبہ کیا۔ دوسری جانب غزہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ آٹا خریدنے کے لیے سونے کے زیورات جیسی ذاتی اشیا فروخت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

غزہ شہر کے 70 سالہ وجیہ النجار جو 13 افراد کے خاندان کی کفالت کرتے ہیں، نے بتایا: ’ہم بھوک اور روزانہ کی تکلیف میں جی رہے ہیں۔ قیمتیں اس ناقابل یقین حد تک بڑھ گئی ہیں کہ غزہ کا کوئی بھی شہری، چاہے وہ ملازم ہو یا بےروزگار، اسے برداشت نہیں کر سکتا۔‘

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ’لوگ خوراک کی تلاش میں موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ انہوں نے آٹے کی قیمت میں غیرمعمولی اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ فی کلو آٹا 35 شیکل (7.74 پاؤنڈ) سے بڑھ کر 180 شیکل (39.80 پاؤنڈ) تک جا پہنچا ہے۔

النجار کا وزن 85 کلوگرام سے کم ہو کر 62 کلوگرام رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’میں اپنے لیے پورا کھانا نہیں خرید سکتا، تو ان بچوں کا کیا ہوگا جنہیں دن میں تین بار کھانے کی ضرورت ہے؟‘

دریں اثنا بی بی سی اور روئٹرز سمیت اہم ذرائع ابلاغ نے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ غزہ میں کام کرنے والے ان کے صحافی بھی ’قحط کے خطرے‘ کا سامنا کر رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ ’ہم غزہ میں اپنے صحافیوں کے لیے سخت پریشان ہیں جو خود اور اپنے خاندانوں کو خوراک فراہم کرنے کے قابل نہیں رہے۔ کئی مہینوں سے یہی صحافی دنیا کی آنکھ اور کان بن کر غزہ سے حالات کی خبر دے رہے ہیں، اور اب خود بھی انہی سنگین حالات کا شکار ہیں۔‘

قیمتوں میں اضافے کا رجحان قابو سے باہر ہے اور غزہ کی پٹی میں خوراک کی قلت اس حد تک بڑھ چکی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ فلسطینی محکمہ صحت کے مطابق 21 ماہ سے جاری اسرائیلی جارحیت اور بمباری میں اب تک 60 ہزار سے زائد افراد کی جانیں جا چکی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ جنگ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملوں کے جواب میں شروع ہوئی۔ ان حملوں میں 1200 افراد مارے گئے اور کم از کم 250 یرغمال بنا لیے گئے۔

یونیورسٹی کے 43 سالہ لیکچرر ایہاب عبداللہ کے بقول: ’میں روزانہ رات کو یہ سوچ کر سوتا ہوں کہ کل بچوں کو کیا کھلاؤں گا۔ میں تو بھوک برداشت کر لیتا ہوں مگر میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ ہم خوراک خریدنے کے قابل نہیں رہے۔ بازار میں آٹا نہیں ملتا۔ جن کے پاس پیسہ ہے اور جن کے پاس نہیں ہے، دونوں برابر ہیں۔ خریداری کی طاقت ختم ہو چکی۔‘

بےگھر ہونے والے 32 سالہ یونس ابو عودہ کا کہنا تھا کہ ’لگتا ہے ہمیں پولٹری فارم میں ڈال کر بھوکا مارا جا رہا ہے۔ ہم نسل کشی، قحط اور نفسیاتی جنگ کا شکار ہیں۔‘

اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ قحط کی ذمہ دار نہیں۔ حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسیر نے کہا کہ خوراک کی یہ کمی حماس کی وجہ سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 19 سے 22 جولائی کے دوران 4400 سے زائد امدادی ٹرک غزہ پہنچے۔

اس بڑھتے بحران کے ماحول میں اسرائیل نے جنگ بندی مذاکرات سے اپنا وفد واپس بلا لیا ہے۔

سر کیئر سٹارمر نے فریقین سے فوری جنگ بندی اور حماس سے تمام یرغمالیوں کو غیر مشروط رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ریاست کا قیام فلسطینی عوام کا حق ہے۔ جنگ بندی ہمیں اسی راستے پر لے جائے گی۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا