پاکستان میں سیاست کا زیادہ محور اور دلچسپی مخالفین کے خلاف پالیسی بیانیہ بنانے پر ہوتی ہے۔
بجائے اس کے کہ سیاسی جماعتیں اپنی قابلیت، نظریے اور حکمت عملی پر مبنی رائے عامہ ہموار کریں، وہ مخالف پارٹی کو ہدف تنقید بنانا زیادہ اہم سمجھتی ہیں۔
سیاست کا مقصد بظاہر عوام کی رہنمائی، مسائل کا حل اور ایک بہتر معاشرے کی تشکیل ہے، لیکن تاریخ کے آئینے میں دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ سیاست نے اپنی اصل سے انحراف بہت پہلے شروع کر دیا تھا۔
یہ انحراف اس وقت سب سے گہرا ہوتا ہے جب سیاست دان عوامی فلاح کی بجائے اقتدار کے حصول کو اولین ہدف بنا لیتے ہیں اور اس ہدف تک پہنچنے کے لیے خوف، نفرت اور تعصب جیسے خطرناک جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے۔
قدیم دنیا میں ریاستوں کی تشکیل قبائلی یا نسلی بنیادوں پر ہوئی۔ ہر قبیلہ یا قوم خود کو افضل اور دوسروں کو کم تر سمجھتی تھی۔
رومیوں نے غیر شہریوں کو ’وحشی‘، یونانیوں نے غیر یونانیوں کو ’باربیرین‘ اور ہندوستانی ذات پات کے نظام میں نیچ اور اعلیٰ کا امتیاز قائم کیا۔
یہ سب دراصل ’ہم‘ اور ’وہ‘ کی وہی پرانی تقسیم تھی، جسے اقتدار کے کھیل میں دانستہ طور پر استعمال کیا گیا۔
بادشاہوں نے اپنی حکومت کو جائز ٹھہرانے کے لیے دشمنوں کی تخلیق کی، خواہ وہ مذہبی ہوں، نسلی ہوں یا علاقائی۔
قرون وسطیٰ میں یہ رجحان مزید پیچیدہ ہوا۔ مذہب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔
صلیبی جنگوں میں مسیحیت کو اسلام کے خلاف کھڑا کیا گیا اور اسلام میں بھی فرقہ واریت نے سیاست کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے خونریزی کو جائز قرار دے دیا۔
سیاسی اختلاف کو کفر، ارتداد یا بغاوت میں بدل دینا اس دور کی خاصیت بن گئی۔
ریاستیں اپنے شہریوں کو بیرونی دشمن کے خلاف متحد کرنے کے لیے اندرونی مخالفت کو بھی اسی دشمن کا حصہ قرار دیتی رہیں۔
جدید دنیا میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں۔ امریکی آزادی کی تحریک میں الیگزینڈر ہیملٹن اور تھامس جیفرسن کے مابین نظریاتی اختلافات جلد ہی ذاتی حملوں میں بدل گئے۔
ان کے حامیوں نے ایک دوسرے کو بدعنوان، ملحد اور غیر محب وطن قرار دیا۔
فرانس میں انقلابی قوتیں، جو بادشاہت کے خلاف اُٹھیں، خود ایک نئے جبر کی علامت بن گئیں اور Robespierre جیسے رہنما نے ’قوم کے دشمنوں‘ کے خلاف گلوٹین کا بے رحم استعمال کیا۔
19ویں صدی کی قوم پرستی نے بھی یہی انداز اپنایا۔ ہٹلر نے جرمنی میں یہودیوں کو اور مسولینی نے اٹلی میں بائیں بازو کے دانش وروں کو ’قومی وجود کے دشمن‘ قرار دیا۔ نفرت کو ریاستی بیانیہ بنا دیا گیا۔
جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی اور دنیا دو نظریاتی دھڑوں میں تقسیم ہو گئی یعنی سرمایہ داری بمقابلہ اشتراکیت۔
اس دوڑ میں جہاں طاقت، ٹیکنالوجی اور اتحادیوں کی اہمیت تھی، وہیں ’دشمن کا خوف‘ سب سے کارآمد سیاسی ہتھیار ثابت ہوا۔
امریکہ میں مکارتھی ازم کی مہم چلی، جس میں کمیونزم کو محض نظریاتی اختلاف نہیں بلکہ غداری قرار دیا گیا۔
سینکڑوں فلمی، ادبی، علمی اور سیاسی شخصیات پر بغیر ثبوت کے الزامات لگائے گئے، ان کی ساکھ تباہ کی گئی اور معاشرہ خوف کی گرفت میں آ گیا۔
یہ سب ریاستی سطح پر منظم پروپیگنڈا تھا، جس کا مقصد سیاسی مخالفین کو خاموش کرنا تھا۔
سرد جنگ کے اختتام کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ دنیا اب زیادہ متوازن، پرامن اور شفاف سیاست کی جانب بڑھے گی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
دشمن کا خوف ختم ہونے کے بعد کئی حکومتوں نے اندرونی اختلافات کو نئے دشمن کی صورت میں پیش کرنا شروع کر دیا۔
پاکستان میں سیاسی جماعتیں، یوٹیوب چینلز اور فیس بک پیجز کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف سادہ سے الزامات کو کردار کشی کی مہم میں بدل دیتی ہیں۔
نائن الیون کے بعد ایک نئی لہر اٹھی جس میں مذہب، خاص طور پر اسلام کو دہشت گردی سے نتھی کیا گیا۔
امریکہ اور یورپ میں اسلاموفوبیا نے نئی سیاسی زبان اختیار کی۔ مسلمانوں کی شناخت، لباس، عبادات اور حتیٰ کہ نام تک کو شک کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔
فرانس میں حجاب پر پابندی اور امریکہ میں ’Muslim Ban‘ جیسی پالیسیاں اسی رجحان کی نمائندہ تھیں۔
پوسٹ کولڈ وار دور میں سب سے بڑا انقلابی عنصر ڈیجیٹل میڈیا کی آمد ہے، جس نے پروپیگنڈا، گمراہی اور نفرت کو عالمی سطح پر ایک کلک کی دوری پر رکھ دیا۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جو اظہارِ رائے کی آزادی کے دعوے کے ساتھ سامنے آئے، جلد ہی جھوٹ، آدھے سچ، جعلی خبروں اور من گھڑت ویڈیوز کا گڑھ بن گئے۔
اب کسی شخص کو بدنام کرنا، کسی قوم کو دہشت گرد قرار دینا یا کسی سیاسی جماعت کو ’ایجنٹ‘ کہنا نہایت آسان ہو گیا ہے۔
مثال کے طور پر 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت اور فیک نیوز کی مہم نے سیاسی بیانیے کو بری طرح آلودہ کیا۔
برطانیہ میں بریگزٹ ریفرنڈم کے دوران مہاجرین اور یورپی یونین کے خلاف جھوٹے دعوے عام کیے گئے۔
ہندوستان میں وٹس ایپ گروپوں کے ذریعے فرقہ وارانہ نفرت کو ہوا دی گئی جبکہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں، یوٹیوب چینلز اور فیس بک پیجز کے ذریعے ایک دوسرے کے خلاف سادہ سے الزامات کو کردار کشی کی مہم میں بدل دیتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سب کچھ اس قدر معمول بن چکا ہے کہ سچ، تجزیہ اور معقول گفتگو ناپید ہو چکی ہے۔
عوام کی توجہ معیشت، تعلیم، صحت اور روزگار جیسے اہم مسائل سے ہٹا کر شخصیات، سازشوں اور مذہبی جذبات کی طرف مبذول کروا دی جاتی ہے۔
لیکن تاریخ میں کچھ روشن مثالیں بھی موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ سیاست نفرت کے بغیر بھی کی جا سکتی ہے۔
نیلسن منڈیلا، جو خود 27 سال قید میں رہے، اقتدار میں آ کر اپنے دشمنوں سے انتقام لینے کی بجائے مفاہمت اور مصالحت کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔
مہاتما گاندھی نے سیاسی آزادی کو عدم تشدد کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ جرمنی کی جدید قیادت نے ہولوکاسٹ جیسے ماضی کا اعتراف کر کے خود کو ایک نئے اجتماعی ضمیر کے ساتھ جوڑا۔
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے مسجد حملوں کے بعد مسلمانوں کو اپنے بازوؤں میں سمیٹا، انہیں ’ہم میں سے‘ قرار دیا اور دنیا کو بتایا کہ قیادت بلند آواز سے نہیں، بڑے دل سے کی جاتی ہے۔
مثبت سیاست کی بنیاد عوام کی خدمت، سچائی، شفافیت اور قابلِ عمل منصوبوں پر رکھی جاتی ہے۔
ایک سیاسی رہنما کا اصل ہنر یہ ہے کہ وہ اختلاف کو دشمنی بننے سے روک سکے اور اپنی خوبیوں سے دل جیتے، نہ کہ دوسروں کی خامیوں سے ان پر حکمرانی کرے۔
اگر ہم واقعی ایک مہذب، پرامن اور ترقی یافتہ دنیا چاہتے ہیں، تو ہمیں بطور عوام بھی یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم ووٹ نفرت پر دیں گے یا امید پر، خوف پر یا وژن پر کیونکہ نفرت کی سیاست صرف چند لوگوں کو طاقت دیتی ہے جبکہ امید کی سیاست پوری قوم کو جِلا بخشتی ہے۔
ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پالیٹیکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔