گذشتہ دو برس کے دوران ریحام خان کی پارٹی کے علاوہ تین نئی سیاسی جماعتوں کا اعلان ہوا ہے، لیکن ریحام پہلی خاتون نہیں ہیں جنہوں نے کوئی جماعت بنائی ہو۔
گذشتہ روز ایک نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنے کے بعد ریحام خان پانچویں خاتون بن گئی ہیں، جو کسی سیاسی جماعت کی سربراہ ہیں۔ ان سے قبل بھی پاکستان میں خواتین سیاسی جماعتوں کی بنیاد رکھ چکی ہیں۔
پاکستان میں سیاسی جماعت کا قیام کوئی نئی بات نہیں ہے۔ البتہ دو برس میں چوتھی سیاسی جماعت کی تخلیق ضرور ایک ریکارڈ ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے بھی نئی سیاسی جماعت کا اعلان کیا ہے اور ان کی سیاسی جماعت کا نام ’پاکستان رپبلک پارٹی‘ ہے۔
ریحام خان کی رپبلک پارٹی سے پہلے پچھلے دو سالوں میں ’استحکام پارٹی،‘ ’تحریک انصاف پارلیمینٹیرین‘ اور پھر ’عوام پاکستان پارٹی‘ وجود میں آئیں۔
امکان ہے کہ سابق وزیراعظم کے پوتے اور میر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ذوالفقار بھٹو جونیئر بھی جلد اپنی سیاسی جماعت کا اعلان کریں گے۔
مذکورہ بالا ’استحکام پارٹی‘ اور ’تحریک انصاف پارلیمینٹیرین‘ کی شاخیں تو تحریک انصاف سے پھوٹیں، جبکہ عوام پاکستان پارٹی کی داغ بیل سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈالی۔
خواتین کی بات کریں تو ریحام خان پانچویں پاکستانی خاتون ہیں جو کسی سیاسی جماعت کی سربراہ ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کی باگ ڈور ان کی بیوہ نصرت بھٹو نے سنبھالی اور ان کی بیٹی بےنظیر بھٹو چیئرپرسن بن گئیں۔ بےنظیر بھٹو اپنی دوسری وزارت عظمیٰ کے وقت پارٹی کی کمان سنبھال کر اس کی سربراہ بن گئیں۔
بےنظیر بھٹو کی بھاوج غنویٰ بھٹو تیسری خاتون تھیں جو سیاسی جماعت کی سربراہ ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی (شہید بھٹو) کی سربراہ ہیں۔ اس جماعت کی بنیاد ان کے شوہر میر مرتضیٰ بھٹو نے رکھی تھی۔
فلم سٹار مسرت شاہین وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اپنی سیاسی جماعت ’مساوات تحریک‘ بنائی، تاہم اس جماعت کو پذیرائی نہ مل سکی۔
اب تک ایک صدرِ ملکت، تین وزرائے اعظم، ایک نائب وزیراعظم، تین آرمی چیفس، ایک ایئر مارشل اور ایک سابق چیف جسٹس پاکستان سمیت کئی نامور سیاست دانوں اور شخصیات نے سیاسی جماعتوں کی داغ بیل ڈالی، لیکن وقت کے ساتھ یہ سیاسی جماعتیں تاریخ کے اوراق میں گم ہو گئیں۔
قیامِ پاکستان کے چند ماہ بعد ملک کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا نام تبدیل کر کے پاکستان مسلم لیگ کر دیا گیا۔
پاکستان بننے کے لگ بھگ پہلے 10 برسوں میں چار سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں۔ ان میں پہلی جماعت پیپلز پارٹی آف پاکستان تھی۔ اس کے بعد آزاد پارٹی پاکستان، آل پاکستان جناح عوامی مسلم لیگ اور پھر رپبلکن پارٹی بنیں۔ 1956 میں بننے والی رپبلکن جماعت کو ’کنگز پارٹی‘ بھی کہا جاتا ہے۔
زیادہ تر تو مسلم لیگ ہی وہ جماعت رہی، جس کے ساتھ لاحقہ لگا کر نئی مسلم لیگ کا ظہور ہوا، جیسے جنرل ایوب خان کی مسلم کنونشن، پیر پگاڑا کی مسلم لیگ فنکشنل، اسی دھڑے کے رکن اور سابق وزیر محمد خان جونیجو جب 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں وزیراعظم بنے تو پھر پاکستان مسلم لیگ وجود میں آئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی مسلم لیگ سے کئی ڈھرے بنے۔ ان میں مسلم لیگ ن، مسلم لیگ (جونیجو)، سابق وزیراعلیٰ منظور وٹو کی مسلم جناح اور جنرل ضیا الحق کے بیٹوں کی مسلم لیگ ضیا سرفہرست ہے۔
فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے مسلم لیگ کنونشن کی بنیاد رکھی تو اس کے مدمقابل مسلم لیگ کونسل کا ظہور ہوا۔ کونسل مسلم لیگ کے سربراہ سابق گورنر جنرل اور سابق وزیراعظم خواجہ نظام الدین تھے۔ اسی جماعت میں جنرل ایوب خان کے سگے بھائی سردار محمد خان بھی شامل ہیں۔ خواجہ نظام الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور دوسرے ہی وزیراعظم بنے۔
سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد دو سیاسی جماعتیں بنیں۔ پہلی مسلم لیگ ن سے مسلم لیگ ق، یعنی مسلم لیگ قائداعظم۔ دوسری پیپلز پارٹی نے اپنے خلاف کسی ممکنہ کارروائی کے خدشے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی ساتھ ایک ’پی‘ کا اضافہ کر دیا۔ اس طرح پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمینٹیرین وجود آئی اور چار ’پی‘ والی یہ جماعت 2002 سے پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں کا حصہ ہے۔
2002 میں جہاں پیپلز پارٹی کی جگہ پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین متعارف ہوئی، وہیں اس نے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ کو جنم دیا لیکن پھر یہ مسلم لیگ ق میں ہی ضم ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کے سابق رہنما اور سابق صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری نے صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد اپنی جماعت ’ملت پارٹی‘ بنائی تاہم پھر وہ اسے تحلیل کر کے مسلم لیگ قاف کا حصہ بن گئے ۔
جنرل ایوب خان کی طرح جنرل پرویز مشرف نے بھی اپنی سیاسی جماعت متعارف کروائی، جس کا نام آل پاکستان مسلم لیگ رکھا گیا لیکن یہ جماعت کوئی جگہ نہ بنا سکی۔ سابق آرمی چیف جنرل مزرا اسلم بیگ نے پہلے تو مسلم لیگ جونیجو میں شمولیت اختیار کی اور بعد میں ’عوامی قیادت پارٹی‘ بنائی، جو اب برائے نام ہی ہے۔
عسکری شخصیات میں بہت سے سیاسی جماعتوں میں شامل رہے۔ ان میں سپاہ سالار جنرل ٹکا خان پیپلز پارٹی کا حصہ رہے تو جنرل امیر عبداللہ خان نیازی المعروف جنرل نیازی نے ’جماعت عالیہ مُجاہدین‘ بنائی جبکہ جنرل حمید گل نے ’تحریک اتحاد‘ نامی سیاسی جماعت کا اعلان تو کیا لیکن اسے الیکشن کمیشن میں رجسٹر نہیں کروایا۔
سابق وزرائے اعظم میں چوہدری محمد علی نے ’نظام اسلام پارٹی‘، شاہد خاقان عباسی نے ’عوام پاکستان پارٹی‘ اور نائب وزیراعظم نور الامین نے ’قومی محاذ‘ کے نام سے سیاسی جماعت تشکیل دی۔
ایئر مارشل اصغر خان نے اپنی زندگی میں دو سیاسی جماعتیں بنائیں۔ ’جسٹس پارٹی‘ کو تین سیاسی جماعتوں کے اتحاد میں ضم کر دیا گیا۔ دوسری سیاسی جماعت ’تحریکِ استقلال‘ کی داغ بیل ڈالی۔ یہ اپوزیشن کی مقبول جماعت رہی اور ایک وقت میں سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق وزیر قانون محمود علی قصوری اور ماہر قانون اعتراز احسن بھی اس کا حصہ رہے۔
اپوزیشن کی ایک بڑی جماعت ’نیشنل عوامی پارٹی‘ پر جب پابندی لگائی گئی تو پھر اس کے سربراہ ولی خان نے ’عوامی نیشنل پارٹی‘ کے نام سے نئی جماعت بنائی۔
سندھ کے صوبائی دارالحکومت سے ابھرنے والی جماعت ایم کیو ایم کا جہاں نام تبدیل ہوا وہیں یہ دھڑوں میں بھی تقسیم ہوئی۔ ’مہاجر قومی موومنٹ‘ سے ’متحدہ قومی موومنٹ‘ بنی۔ پھر اس میں سے ’ایم کیو ایم حقیقی‘ کا ظہور ہوا۔ آج کل ’ایم کیو ایم پاکستان‘ اور ’ایم کیو ایم لندن‘ کے نام سے دو ڈھرے ہیں۔ اسی جماعت کے ایک رکن نے ’ایم کیو ایم‘ سے علیحدگی کے بعد ’پاک سرزمین پارٹی‘ بنائی لیکن پھر اسے ’ایم کیو ایم‘ میں شامل کر دیا۔
سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پاکستان جسٹس ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد پر رکھی، لیکن یہ بھی سیاسی منظر پر غیر فعال ہے۔