امریکہ نے منگل کو پاکستان میں ایران کے موجودہ سفیر رضا امیری مقدم کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کر دیا ہے۔
ان پر الزام ہے کہ انہوں نے دیگر دو ایرانی اہلکاروں کے ساتھ 2007 میں ایران سے ایک امریکی ریٹائرڈ خصوصی ایجنٹ رابرٹ لیونسن کو اغوا کیا تھا۔
اس وقت امریکی وزیرِ خزانہ سٹیون منوچن نے کہا تھا کہ ’مسٹر لیونسن کی گرفتاری ایرانی حکومت کی غیرمنصفانہ اقدامات کے لیے آمادگی کی سنگین مثال ہے۔‘
صدر ٹرمپ نے بھی ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ لیونسن کو امریکہ کے حوالے کر دیں۔
تاہم ایرانی حکومت لیونسن کے بارے لاعلمی کا اظہار کرتی رہی ہے، لیکن نیویارک ٹائمز کے مطابق اعلیٰ امریکی عہدے دار نجی طور پر کہتے رہے ہیں کہ لیونسن کو ایرانی امریکی جاسوس سمجھتے ہیں اس لیے اسے قید میں رکھا ہوا ہے۔
2010 میں اس وقت کے ایرانی صدر احمدی نژاد نے کہا تھا کہ ’اگر یہ واضح کر دیا جائے کہ لیونسن کا مشن اور مقاصد کیا تھے، یا یہ کہ آیا وہ واقعی کسی مشن پر تھے، تب ان کے بارے میں کوئی مخصوص مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔‘
لیونسن کے خاندان نے کہا تھا کہ انہوں نے ایرانی رہبرِ اعلیٰ خامہ ای کو لیونسن کی رہائی کی درخواست بھیجی ہے، لیکن اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔
لیونسن کے خاندان کے افراد ان کی بازیابی کے لیے مسلسل کوششیں کرتے رہے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے 2013 میں انکشاف کیا تھا کہ لیونسن کے خاندان کو سی آئی اے نے 25 لاکھ ڈالر دیے ہیں تاکہ وہ لیونسن کے ایران میں مشن کی تفصیلات جانے کے لیے عدالت میں مقدمہ نہ دائر کریں۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ ایرانی حکومت نے لیونسن کے اغوا کی سازش کی باقاعدہ منظوری دی اور کئی برس تک اس میں اپنے کردار سے انکار کرتے ہوئے جھوٹ پر مبنی مہمات چلائیں تاکہ ذمہ داری سے بچا جا سکے اور حکومت کے کردار کو چھپایا جا سکے۔
امریکہ نے ایرانی انٹیلی جنس افسران، محمد باصری اور احمد خزاعی پر لیونسن کے اغوا اور ممکنہ قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ ان پابندیوں کے تحت اگر ان کے پاس امریکہ میں ممکنہ جائیداد یا اثاثے منجمد کر دیے تھے۔ اس کےعلاوہ ان کی نقل و حرکت اور مالی معاملات کو بھی محدود کر سکتی ہیں۔
غائب ہونے کے تین سال بعد لیونسن کی ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی تھی جس میں وہ داڑھی اور بےترتیب لمبے بالوں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے نارنجی رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا جیسے گوانتاموبے کے قیدیوں کو پہنایا جاتا تھا۔
اس ویڈیو کے پس منظر میں ایک پشتو گانا سنا جا سکتا ہے جس سے یہ شبہ ظاہر کیا گیا کہ شاید وہ افغانستان میں ہیں۔
لیونسن کی گمشدگی کے برسوں میں یہ خبریں گردش میں رہیں کہ وہ پاسدارانِ انقلاب کی قید میں ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جبری حراست کے ورکنگ گروپ نے بھی ایران کو لیونسن کی گمشدگی کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔
موت کی خبر
امریکی حکومت نے 2020 میں اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ لیونسن ایرانی حراست میں چل بسے تھے، تاہم اس بارے میں مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
وائٹ ہاؤس نے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن نے 2020 میں کہا تھا کہ لیونسن ’کچھ عرصہ قبل چل بسے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رابرٹ لیونسن کی مبینہ موت پر امریکہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق دورِ صدارت میں دسمبر 2020 میں پہلی بار باضابطہ طور پر دو ایرانی انٹیلی جنس افسران کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ اب رضا امیری مقدم کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
لیونسن کون تھے اور ایران میں کیا کر رہے تھے؟
لیونسن 2007 میں، جب ان کی عمر 59 برس تھی، ایران کے جزیرہ کیش میں پراسرار طور پر لاپتہ ہو گئے تھے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق لیونسن کو جزیرہ کیش میں نو مارچ 2007 کو ایک مخبر سے ملنا تھا کہ وہ لاپتہ ہو گئے۔ امریکی حکام نے اس وقت کہا تھا کہ وہ نجی طور پر سگریٹ سمگلنگ کے کسی کیس پر کام کر رہے تھے مگر خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی تحقیقات کے مطابق لیونسن کو امریکی سی آئی اے کے ایسے اہلکاروں نے ایران بھیجا تھا جو اس کے مجاز نہیں تھے۔
ٹائمز کے مطابق سی آئی اے نے اپنے تین اہلکاروں کو برطرف کر دیا تھا جب کہ سات دوسروں کی تادیب کی گئی تھی۔
ایف بی آئی میں وہ روس کے منظم جرائم پیشہ گروہوں پر کام کرتے تھے، تاہم لیونسن 1998 میں ایف بی آئی سے قبل از وقت ریٹائر ہو گئے تھے۔ اس کے بعد وہ کئی نجی جاسوسی کمپنیوں کے لیے کام کرتے رہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق 2006 کے وسط میں سی آئی اے کے ایک اہلکار نے لیونسن سے رابطہ کر کے انہیں کنٹریکٹ پر کام کرنے کی دعوت دی۔ ان کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ پتہ چلائیں کہ ایران خود پر لگائی گئی پابندیوں کا کیسے مقابلہ کرے گا۔ مزید یہ کہ انہیں کہا گیا کہ وہ ایران حکام کے بارے میں شرمناک معلومات حاصل کریں۔
لیونسن دبئی سے جزیرہ کیش پہنچے جہاں انہیں صلاح الدین نامی ایک شخص سے ملنا تھا کہ وہ لاپتہ ہو گئے اور پھر ان کی موت کی خبر آئی۔