امریکہ کو مطلوب ایرانی سفیر کو ’مکمل سفارتی پروٹوکول‘ حاصل ہے: پاکستان

پاکستان میں ایرانی سفیر کی امریکی ایف بی آئی کی مطلوب افراد کی فہرست میں شمولیت کے بعد پاکستان نے کہا ہے کہ سفیر رضا امیری مقدم کو ’مکمل سفارتی پروٹوکول‘ حاصل ہے۔

ایف بی آئی کی ویب سائٹ پر جاری پوسٹر جس کی رو سے 16 جولائی 2025 کو پاکستان میں ایرانی سفیر رضا امیری مقدم امریکہ کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں (ایف بی آئی)

امریکہ نے منگل کو پاکستان میں ایران کے موجودہ سفیر رضا امیری مقدم کو انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ان پر، اور دو دیگر ایرانی اہلکاروں پر 2007 میں ایران کے جزیرہ کیش سے ایک امریکی ریٹائرڈ خصوصی ایجنٹ کے اغوا میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے اس معاملے پر وزارت خارجہ کا موقف جاننے کے لیے سوال کیا کہ ’کیا سفیر رضا امیری مقدم کو ایف بی آئی کی مطلوبہ فہرست میں شامل کیے جانے کے بعد پاکستان پر کوئی قانونی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں؟‘

جواب میں ترجمان وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ایران کے سفیر ہمارے لیے قابل احترام ہیں، اپنے ہمسایہ برادر ملک سے ان کو مکمل سفارتی پروٹوکول حاصل ہے اور کسی بھی تیسرے ملک کے فیصلے سے سفارتی سٹیٹس پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

بطور سفارت کار رضا امیری مقدم کو استثنیٰ حاصل ہے، اس لیے پاکستان انہیں گرفتار نہیں کر سکتا۔ تاہم، ماضی میں ایسی نظیر موجود ہے جب پاکستان نے اس سے قبل 2001 میں طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا تھا۔

فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) نے اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں کہا ہے کہ ’معلومات کی تلاش‘ کے پوسٹرز کا اجرا جن میں تین سینئر ایرانی عہدیدار شامل ہیں، رابرٹ اے ’باب‘ لیونسن کی گمشدگی اور ایران کی جانب سے اپنی ذمہ داری چھپانے کی مبینہ کوششوں کے بارے میں جاری تحقیقات کا حصہ ہیں۔

دیگر دو نامزد افراد میں تقی دانشور ہیں، جن کی شناخت ایران کی وزارت انٹیلی جنس اینڈ سکیورٹی میں انسداد جاسوسی افسر کے طور پر ہوئی ہے اور غلام حسین محمدنیہ جنہوں نے 2018 میں نکالے جانے سے قبل البانیہ میں ایران کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔

ایف بی آئی کے واشنگٹن فیلڈ آفس کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر انچارج سٹیون جینسن نے جاری شدہ بیان میں کہا کہ ’یہ تین انٹیلی جنس افسران ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے مبینہ طور پر باب لیونسن کے 2007 کے اغوا اور اس کے بعد ایرانی حکومت کی طرف سے پردہ پوشی میں سہولت فراہم کی تھی۔‘

’باب ممکنہ طور پر بعد میں اپنے خاندان، دوستوں اور ساتھیوں سے بہت دور قید میں جان سے گئے۔‘

انہوں نے مزید کہا، ’ایف بی آئی اس اغوا میں ملوث کسی بھی شخص کو ان کے قابل مذمت اعمال کا حساب دینے کے لیے اپنی مسلسل کوشش جاری رکھے گی۔‘

ایف بی آئی کے مطابق، مقدم، جنہیں احمد امیرینیہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے لیونسن کے اغوا کے وقت  منسٹری آف انٹیلیجنس اینڈ سکیورٹی ایران کے آپریشن یونٹ کی قیادت کی، ایف بی آئی کے مطابق یورپ میں مقیم انٹیلیجنس ایجنٹوں نے انہیں تہران میں اطلاع دی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ تہران میں حکام نے ایف بی آئی ایجنٹ کے اغوا کا الزام پاکستان کے بلوچستان کے علاقے میں سرگرم عسکریت پسند گروپ پر ڈالنے کی کوشش کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایف بی آئی باب لیونسن کے بارے میں ٹھوس اطلاع، بازیابی یا ان کی واپسی کی معلومات کے لیے پچاس لاکھ ڈالر تک کے انعام کی پیشکش جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس کے علاوہ، امریکی محکمہ خارجہ کا ’انعام برائے انصاف پروگرام‘ اس کیس میں متعلقہ معلومات کے لیے بیس لاکھ ڈالر انعام تک کی پیشکش کر رہا ہے۔

امیری مقدم کی عمر 64 برس ہے، اور پاکستان میں ایرانی سفارت خانے کی ویب سائٹ کے مطابق انہوں نے انٹرنیشنل ریلیشنز میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا