ایران پر امریکی اور اسرائیلی حملے اور مستقبل کے ممکنہ منظرنامے

ایران کے ساتھ بات چیت کے ساتھ ساتھ یہ واضح کرنا ہوگا کہ خطے میں جوہری خطرات کی اصل وجہ اسرائیل ہے تاکہ معاملات مکمل طور پر قابو سے باہر نہ ہو جائیں اور خفیہ جوہری پروگراموں کی دوڑ شروع نہ ہو جائے۔

یہ ہینڈ آؤٹ سیٹلائٹ تصویر میکسار ٹیکنالوجیز کی طرف سے فراہم کی گئی ہے اور 24 جون 2025 کو لی گئی ہے، اس میں اصفہان جوہری افزودگی کی سہولت اور وسطی ایران میں قریبی سرنگوں کا جائزہ دکھایا گیا ہے (اے ایف پی)

ایران پر امریکی اور اسرائیلی حملے اور اس کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے کئی ممکنہ اثرات اور متعدد ممکنہ منظرنامے سامنے آ سکتے ہیں۔ ان کا انحصار اس بات پر ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کو کتنا نقصان پہنچا اور ان تینوں ممالک میں داخلی ردعمل کیا رہا۔

سیاسی ہنگامہ آرائی اور ابتدائی اندازوں سے ہٹ کر ان سب کے بارے میں اصل نتائج اور شواہد سامنے آنے کے بعد ہی واضح طور پر بات ہو سکے گی۔

اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ ایران کو اسرائیل کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان ہوا ہے حالانکہ اسرائیل نے اپنے نقصانات کو جان بوجھ کر چھپایا ہے کیونکہ اسرائیلی معاشرہ پہلی بار اپنے شہروں کے اندر حملوں کا سامنا کیا ہے۔

میری توقع ہے کہ اسرائیل ایران کے جوہری پروگرام اور پالیسیوں پر سوالات اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھے گا اور اسے اپنے لیے فوجی کارروائی اور اہداف کو نشانہ بنانے کا جواز بنائے گا۔ وہ ایران اور مشرق وسطیٰ میں ایسے تنازعات اور محاذ پیدا کرے گا جو اس کے قابو میں ہوں تاکہ اپنی داخلی صف بندی برقرار رکھ سکے اور مغربی دنیا سے حمایت حاصل کرے۔

اس کی خاص توجہ یورینیم کی افزودگی کے مسئلے پر ہو گی لیکن فوجی صلاحیتوں کے دیگر پہلوؤں پر بھی بات ہوگی۔ اسرائیل حالیہ مہینوں میں سرحد پار طاقت کے استعمال کے حق کو بغیر کسی بین الاقوامی احتساب کے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھتا ہے۔

امریکہ کا مستقبل کا مؤقف اب تک غیر واضح ہے۔ اگر ایران کے جوہری پروگرام سے خطرہ ختم ہو جائے تو امریکہ انتہائی ناگزیر مواقع کے علاوہ براہ راست فوجی کارروائیوں سے گریز کرے گا۔ امریکہ چاہے گا کہ اسرائیل ہی خطے میں اس کا بڑا فوجی بازو بنا رہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ اسرائیلی کارروائیاں اکثر امریکہ کو بھی میدان جنگ میں کھینچ سکتی ہیں۔

امریکہ کے لیے بنیادی شرط یہ ہوگی کہ ایران کی جوہری افزودگی روک دی جائے اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق مکمل شفافیت اور نگرانی کو یقینی بنایا جائے۔

ایران کے پاس کئی راستے ہیں۔ مغربی دنیا چاہتی ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام خاص طور پر یورینیم کی افزودگی اور اپنا افزودہ مواد کو چھوڑ دے لیکن ایران اسے امریکہ کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے مترادف سمجھتا ہے اور رہبرِ اعلیٰ کے بیانات اس امکان کو مسترد کرتے ہیں تاہم ایران کے لیے فی الحال براہ راست فوجی تصادم میں دوبارہ جانا فائدہ مند نہیں، خاص طور پر حالیہ جانی، مالی اور سیاسی نقصانات کے بعد۔

ایرانی وزیر خارجہ کے بیانات نسبتاً نرم اور حقیقت پسندانہ رہے ہیں اس لیے امکان ہے کہ ایران مذاکرات اور بات چیت کو طول دینا چاہے گا تاکہ اگر وہ امریکہ کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کرے تو سیاسی طور پر اپنی عزت نفس بچا سکے یا اگر وہ خفیہ طور پر اپنا جوہری اور فوجی پروگرام جاری رکھنا چاہے تو اسے وقت مل سکے۔

عرب اور خلیجی ممالک کا ان واقعات سے فکرمند ہونا فطری ہے اور وہ اپنے دفاعی و قومی سلامتی کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ممکنہ منظرناموں کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں۔ ان میں جوہری مواد کے اخراج، خفیہ جوہری پروگراموں اور اسرائیل کے ساتھ دوبارہ جنگ جیسے خدشات شامل ہیں جو خلیج کے امن کو متاثر کر سکتے ہیں۔

مشرق وسطیٰ اور مصر جیسے ممالک بھی ان خدشات کا جائزہ لے رہے ہیں کیونکہ خلیج میں ایران اور شمال مغربی ایشیا میں اسرائیل کے درمیان عسکری و تنکیکی تصادم پورے خطے پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔

بدقسمتی سے موجودہ اسرائیلی حکومت کی علاقائی جارحانہ سوچ اور امریکی جانبداری کے باعث ان خطرات کو روکنا مشکل ہے تاہم جوہری مسئلے کو ممکنہ حد تک اس تصادم سے الگ رکھنے کی کوشش ضرور ہونی چاہیے۔

اس کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت کے ساتھ ساتھ یہ واضح کرنا ہوگا کہ خطے میں جوہری خطرات کی اصل وجہ اسرائیل ہے تاکہ معاملات مکمل طور پر قابو سے باہر نہ ہو جائیں اور خفیہ جوہری پروگراموں کی دوڑ شروع نہ ہو جائے۔

ایران کی مذاکرات میں متوقع تاخیر، جو حالیہ حالات کے تناظر میں کسی حد تک منطقی بھی ہے، اقوام متحدہ کی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ کی ناقص کارکردگی کے باوجود، ایران پر دباؤ کم نہیں ہوگا۔

اس پر اپنی جوہری تنصیبات پر بین الاقوامی معیارات کے مطابق مکمل نگرانی اور معائنے کی اجازت دینے، اپنے پروگرام کی عسکری نوعیت سے متعلق سوالات کے جوابات دینے، 60 فیصد تک افزودہ جوہری مواد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے اور افزودگی کی شرح کو کم کرنے کا دباؤ ہو گا۔

اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور امریکہ ایران کی بیلسٹک اور فوجی صلاحیتوں پر بھی حدود مقرر کرنے کا مطالبہ کرتے رہیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میں پھر دہراتا ہوں کہ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی ) کا رکن ہے اور اس نے اپنی تنصیبات پر اضافی معائنے کی اجازت دے رکھی ہے اس لیے اسے بین الاقوامی قانون کے مطابق مخصوص حد تک یورینیم افزودہ کرنے کا حق حاصل ہے۔

کسی بھی ملک کو محض پالیسی اختلاف کی بنیاد پر ایران کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کا کوئی قانونی حق حاصل نہیں۔

اسی طرح میں پھر دہراتا ہوں کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جو اس معاہدے میں شامل نہیں اور اس کی جوہری تنصیبات کسی بین الاقوامی معائنے کے تابع نہیں ہیں۔ اسرائیل کے پاس یورینیم افزودگی کی تنصیبات اور غالباً متعدد جوہری ہتھیار اور انہیں لے جانے والے میزائل بھی موجود ہیں، جو پورے خطے کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں اور مشرق وسطیٰ میں عسکری ٹیکنالوجی کی دوڑ کو جنم دے سکتے ہیں۔

لہٰذا عالمی برادری کو معیارات میں دوغلے پن کے باوجود فوری طور پر ایران کے مسئلے کو ترجیح دیتے ہوئے تخلیقی حل تلاش کرنے چاہییں تاکہ خطے میں استحکام قائم رہے۔ دوسری طرف اسرائیل کو ہر قانون و قاعدے سے مستثنیٰ قرار دینا اور اس کی خلاف ورزیوں سے آنکھیں بند کرنا ایک افسوس ناک حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔

مشکل حالات کے باوجود ان دونوں معاملات کو علاقائی اور عالمی سطح پر ایک وسیع تر تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے جیسے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایک قرارداد منظور کرے جس میں مشرق وسطیٰ کو 12 ماہ کے اندر جوہری ہتھیاروں سے مکمل پاک کرنے پر زور دیا جائے اور تمام جوہری تنصیبات پر سخت معائنے کی شرط رکھی جائے۔

یہ تجویز مصر نے 50 سال پہلے دی تھی۔ اس قرارداد میں یہ بھی شامل ہو کہ خطے میں جوہری مواد کی فراہمی اور مجاز افزودگی کے عمل کی نگرانی کے لیے ایک بین الاقوامی ادارہ قائم کیا جائے جس کا ہیڈکوارٹر ایران یا اسرائیل میں نہ ہو۔

ایران اپنے جوہری پروگرام میں مکمل شفافیت فراہم کرے اور اسرائیل عدم پھیلاؤ کے معاہدے میں شامل ہو کر اپنی تنصیبات پر معائنہ قبول کرے۔ ساتھ ہی خطے کے تمام ممالک جوہری تجربات پر پابندی کے معاہدے میں شامل ہوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن خطے کے ممالک کو قانونی ضمانت دیں کہ ان کے خلاف جوہری ہتھیار استعمال نہیں ہوں گے۔

اس طرح ہم ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تمام خدشات کو ایک مناسب فریم ورک میں لائیں گے اور اسرائیل کے جوہری پروگرام کو بھی ایک بڑی ڈیل کے تناظر میں دیکھیں گے جس میں ایران کے اقدامات اور افزودگی و معائنے کے سخت نظام شامل ہوں گے تاکہ خطے کو موجودہ اور مستقبل کے جوہری خطرات سے بچایا جا سکے اور سب کے لیے یکساں معیارات طے کیے جا سکیں۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ عربیہ

نبیل فہمی مصر کے وزیرِ خارجہ رہ چکے ہیں۔ 

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر