سیاسی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ابھی مخمصے کا شکار ہے کہ وہ اعلان کردہ تحریک اپنے بانی کی رہائی کے لیے چلانا چاہتی ہے یا پھر حکومت گرانے کے لیے، جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین کا کہنا ہے کہ سیاسی جدوجہد میں سارے راستے کھلے ہونے چاہییں۔ البتہ سیاسی مخالفین اس تحریک کو جماعت کے ’تابوت میں آخری کیل‘ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ایک مرتبہ پھر ہلچل دکھائی دینے لگی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے جیل میں دو سال پورے ہونے پر ایک طرف احتجاجی تحریک کا اعلان ہوا ہے، جب کہ بعض رہنما مذاکرات کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔
بدھ نو جولائی کو پی ٹی آئی کے پانچ اسیر رہنماؤں کا جیل سے تازہ بیان منظر عام پر آیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’حکومت ہمارا احتجاج کا آئینی حق تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارے ہر احتجاج کو حکومت کی طرف سے پر تشدد بنایا گیا۔ ہم تمام اپوزیشن جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ ملک میں آئین و قانون کی بالادستی، انسانی حقوق کی بحالی اور کرپشن کے خاتمہ کے لیے تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک میں شامل ہوں۔ دھاندلی کے ذریعے آنے والی حکومت عوام کو ان کا حق دینے کو تیار نہیں۔ ہماری مفاہمت کی پالیسی کو حکومت مذاحمت کا رنگ دے رہی ہے۔‘
دونوں بیانیوں کی موجودگی میں بقول علیمہ خان عمران خان کے بیٹوں کی والد کی رہائی کے لیے امریکہ جاکر ٹرمپ انتظامیہ سے لابنگ اور تحریک میں شمولیت سے کامیابی کی کوشش کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما میاں مرغوب احمد کا کہنا ہے کہ ’تحریک انصاف نے اگر تحریک چلائی تو ان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گی۔ حکومت نے پنجاب سمیت ملک میں امن وامان قائم رکھنے کا پہلے بھی پورا اختیار استعمال کیا اور اب بھی عوام کے جان ومال کی حفاظت یقینی بنائے جائے گی۔‘
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی پھر سے احتجاج پر مصر نظر آ رہی ہے اور اس حوالے سے اس نے تنظیمی سطح پر تیاریوں کا آغاز بھی کر رکھا ہے۔
’مگر ابھی تک یہ واضح نہیں ہو رہا کہ ان کی تحریک کی بنیاد کیا ہے؟ کیا یہ احتجاج صرف بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے ہے یا حکومت گرانے کے لیے ہے یا وہ عوام کے حقیقی مسائل کی بنیاد پر عوام میں آنا چاہتے ہیں۔ ابھی کنفیوژن قائم ہے۔‘
دو بیانیے اور تحریک کی کامیابی
تحریک انصاف کے اڈیالہ جیل میں اسیر بانی سربراہ عمران خان سے منگل کو ملاقات کے بعد پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’میرا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ سیاسی جدوجہد میں سارے آپشنز کھلے ہونا چاہیے اور اس وقت بھی کوشش ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھے۔
’جن لوگوں سے بات چیت ہونی چاہیے کوشش ہے انہی سے بات ہو۔ ہم نے مذاکرات سے کبھی راہ فرار اختیار نہیں کیا بلکہ بانی نے ہمیشہ مذاکرات کا کہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان نے حکومتی مذاکرات کی پیشکش کو اس لیے ٹھکرا دیا تھا کیونکہ بانی کا مؤقف ہے کہ اگر حکومت سنجیدہ ہے تو پہلے کوئی مثبت اقدامات ہونے چاہییں۔‘
ادھر بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے میڈیا سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ’عمران خان کی رہائی کے لیے پی ٹی آئی تحریک شروع کر رہی ہے۔ اس حوالے سے حتمی تاریخ پی ٹی آئی جلد دے گی لیکن عمران خان کو جیل میں قید کے پانچ اگست کو دو سال مکمل ہو رہے ہیں اوراس دن تک تحریک اپنے عروج پر ہوگی۔‘
پی ٹی آئی کے جیل میں قید رہنماؤں شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ و دیگر کی جانب سے گذشتہ ہفتے ایک تحریری بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں مذاکرات کی ضرورت اور بات چیت سے مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
عمران خان کے صاحبزادے اور احتجاجی تحریک
عمران خان کے وکیل اور پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ نے اسلام آباد میں بدھ کو میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’عمران خان کے بیٹوں کو تحریک میں شمولیت کا پورا حق ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ وہ تحریک کا حصہ نہ بنیں۔ وہ اپنے والد کی رہائی کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ان کے شانہ بشانہ چلیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے اپنے بیان میں کہا کہ ’عمران خان کے بیٹے تحریک میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو شوق سے ہوں لیکن امن وامان خراب کرنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر تحریک انصاف نے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی تو 26 نومبر سے بھی زیادہ مرمت کی جائے گی۔‘
میاں مرغوب احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی ملک میں انتشار ہھیلانا چاہتی ہے۔ انہوں نے کبھی پر امن احتجاج نہیں کیا۔ چاہے نو مئی ہو یا 26 نومبر بدامنی پھیلا کر اداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب کے عوام نے پہلے بھی انہیں مسترد کردیا اب بھی لوگ ان کے لیے ترقی روکنے کے لیے کسی کے آلہ کار نہیں بنیں گے۔
’سڑکیں بند کرنے یا توڑ پھوڑ کی اجازت پہلے دی گئی نہ اب بھی ایسی کوئی کوشش کامیاب ہونے دیں گے۔ ایسے تحریکیں نہیں چلائی جاتیں بلکہ انتشار پھیلایا جاتا ہے۔‘
عمران خان کے صاحبزادوں کی امریکی لابنگ کتنی کامیاب ہو گی؟
عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کے لندن میں مقیم دونوں بیٹے اپنے والد اور سینکڑوں پارٹی ورکرز کے حق میں لابنگ کرنے کے لیے امریکہ روانہ ہونے والے ہیں۔
’ان کے بیٹوں سلیمان اور قاسم نے برطانیہ سے امریکہ جانے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیغام ہمارے والد کو بتا دیں کہ ہم اجازت نہیں لے رہے بلکہ آگاہ کر رہے ہیں۔ بعد ازاں وہ دونوں پاکستان آ جائیں گے تاکہ حکومت کے خلاف تحریک انصاف کی احتجاجى مہم کا حصہ بن سکیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق ’ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اپنے والد کی جماعت میں شامل ہو کر باقاعدہ طور پر پاکستان کی روایتی سیاسی جماعتوں کی طرح موروثی کلچر کو آگے بڑھائیں گے یا نہیں۔ البتہ امریکہ میں لابنگ کے ذریعے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اور جماعت میں موثر افراد تک رسائی حاصل کر کے انہیں عمران خان کی رہائی کے لیے آوز اٹھانے کی اپیل کریں گے۔
’البتہ تحریک انصاف نے عمران خان کے دونوں بیٹوں کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کر کے بڑا سیاسی کارڈ کھیلا ہے۔ لیکن اس کے نتائج سامنے آنے پر دیکھا جائے گا۔‘
تحریک اںصاف کے سابق رہنما اسحاق خان خاکوانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’تحریک انصاف کے مرکزی عہدیدار مذاکرات کی بات کر رہے ہیں لیکن ان کی بہنیں اور وہ خود احتجاجی تحریک چلانے پر بضد ہیں۔ لہذا ان کی یہ تحریک صرف کارکنوں کو سرگرم رکھنے کے علاوہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ کیونکہ ملکی حالات مسلسل تبدیل ہورہے ہیں معاشی بہتری اور عالمی سطح پر پذیرائی حکومت کے خلاف کسی بیانیے کو تقویت میں روکاٹ ہے۔‘
اسحاق خاکوانی کے بقول: ’ٹرمپ سمیت امریکی انتظامیہ اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین تعلقات رکھتی ہے۔ ان حالات میں عمران خان کے بیٹوں کی بات پر یقین کیوں کریں گے۔ لہذا پی ٹی آئی کی جانب سے ماضی میں امریکہ میں لابنگ کی طرح اس بار بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلے گا۔‘
سلمان غنی کے بقول’پی ٹی آئی کے لیے پارلیمانی سیاست اور عدالتی سطح پر اس وقت مشکل وقت ہے۔ ان حالات میں کوئی بھی تحریک کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ البتہ جب بھی مسائل حل ہوں گے وہ مذاکرات سے ہی ہوسکتے ہیں۔ مزاحمت کا استعمال کبھی فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکا۔‘