روس اور افغان طالبان کے درمیان گرمجوشی کی وجوہات کیا؟

پاکستان نے گذشتہ دنوں میں کابل میں اپنے سفیر کو اپ گریڈ کیا ہے، البتہ دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد طالبان حکومت تسلیم کرنے میں روس کی تقلید کرتا ہے یا مغرب کا انتظار۔

روس کی جانب سے تین جولائی 2025 کو طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے فیصلے کے بعد افغان حکام ماسکو میں افغانستان کے سفارت خانے پر اپنا سفید پرچم آویزاں کر رہے ہیں (افغان سفارت خانہ، ماسکو)

روس بالآخر وہ پہلا ملک بن گیا ہے، جس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لیا ہے۔ کیا یہ فیصلہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوگا یا ایک آدھ ملک کی جانب سے انفرادی مفاد حاصل کرنے کی کوشش؟

90 کی دہائی میں صرف پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات وہ تین ملک تھے، جنہوں نے طالبان کی پہلی حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ اس مرتبہ یہ بازی روس لے گیا ہے۔

2003 میں روسی سپریم کورٹ نے طالبان تحریک کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے چیچنیا میں مسلح گروپوں کے ساتھ روابط ہیں، لیکن اس کے باوجود روس نے افغانستان کے ساتھ دلچسپی برقرار رکھی۔

طالبان کی اقتدار میں 2021 میں واپسی کے بعد روس پہلا ملک تھا جس نے کابل میں اپنا تجارتی نمائندہ دفتر کھولے رکھا اور افغانستان سمیت جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کو اپنی گیس فروخت کرنے کے ارادے کا اعلان کیا تھا۔ پچھلے چار سال سے ان کے سفارت کار کابل میں موجود ہیں۔

2017 سے روس اُس وقت کی کابل انتظامیہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات بھی کروا رہا تھا۔ ان کوششوں میں پاکستان، چین اور وسطی ایشیائی ممالک بھی شریک تھے۔ ان رابطوں کے علاوہ جولائی 2024 میں روسی صدر ولادی میر پوتن کے بیان سے دونوں کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی کے اشارے ملے، جب انہوں نے طالبان کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی‘ قرار دیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین کی وزارت خارجہ نے روسی فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے افغانستان اور بین الاقوامی برادری کے درمیان روابط میں اضافے کی حمایت کی۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا کہ چین سمجھتا ہے کہ افغانستان کو دنیا سے الگ تھلگ نہیں ہونا چاہیے۔

روس اور افغان طالبان حکومت دونوں کا اس تازہ فیصلے میں فائدہ ہے۔ دونوں کو مغرب کی اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔ روس پر یوکرین کی جنگ اور طالبان پر حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے بندشیں لگی ہیں۔

روس یورپ سمیت مغرب میں خود پر لگی پابندیوں کی وجہ سے اس خطے کے قریب آنا چاہتا ہے۔ وہ چین کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنا رہا ہے اور وسطی ایشیا کے ساتھ بھی اس کی دلچسپی تاریخی رہی ہے۔ ماسکو کے سٹی ہال میں گذشتہ سال مارچ میں داعش کے حملے کے بعد اسے علاقے میں شدت پسندی کے بڑھتے رجحان پر بھی تشویش ہے اور اس کے خیال میں اس بابت افغان طالبان کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

روس کے خصوصی صدارتی ایلچی برائے افغانستان ضمیر کابلوف نے گذشتہ دنوں امارت اسلامیہ کی حکومت کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’معروضی شراکت دار‘ قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ روس کو ہتھیاروں سمیت ان کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ افغانستان میں باقی دہشت گردی کے خطرات کو ختم کرنے میں مدد مل سکے۔

دوحہ میں انسداد منشیات اور نجی شعبے کی ترقی کے بارے میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ورکنگ گروپ کے اجلاس کے موقعے پر بات کرتے ہوئے ضمیر کابلوف نے کہا: ’اس خاص معاملے میں وہ (طالبان حکام) ہمارے معروضی اتحادی ہیں، جن کی ہمیں ہر معنی میں مسلح کرنے کے لیے حمایت کرنی ہوگی تاکہ وہ بین الاقوامی دہشت گردی کے ان تمام چھوٹے سے چھوٹے ٹھکانوں کو کامیابی سے کچل سکیں۔‘

لیکن یہ تعاون محض عملی نہیں بلکہ نظریاتی بھی ہے۔ پوتن نے 2022 میں ایک اہم بیان میں کہا تھا: ’ایک ملٹی پولر دنیا میں حقیقی جمہوریت بنیادی طور پر کسی بھی تہذیب کی اپنے راستے پر چلنے اور اپنے سماجی و سیاسی نظام کو منظم کرنے کی صلاحیت کے بارے میں ہے۔

’اگر امریکہ یا یورپی یونین کے ممالک کو یہ حق حاصل ہے تو ایشیا کے ممالک، اسلامی ریاستوں اور خلیج عرب کی بادشاہتوں کو بھی یقینی طور پر یہ حق حاصل ہے۔‘

یہ نظریات قدامت پسند مسلم دنیا میں مقبول ہیں کیونکہ یہ ایک متبادل غیر مغربی نظام کا وعدہ کرتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ ممکنہ مفاہمت خاص طور پر اسلامی دنیا کے لیے ایک علامت ہے کہ امریکہ کے برعکس روس ایک ایسا اتحادی ہے، جو کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا اور نہ ہی اپنی اقدار ڈکٹیٹ کرے گا۔

افغانستان میں روس یا ماضی کے سویت یونین کی یادیں کوئی زیادہ خوشگوار نہیں رہی ہیں۔ انیس سو اناسی سے نواسی تک وہ مجاہدین کے خلاف لڑتا رہا۔ اس جنگ میں 15,000 سے زیادہ سوویت فوجی مارے گئے، جس کے نتیجے میں وہ 1989 میں افغانستان سے انخلا پر مجبور ہوا تھا۔

طالبان کی جانب سے خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اور انہیں سماجی زندگی سے خارج کرنا مغربی ممالک کی جانب سے تسلیم کرنے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ابھی بھی ہے۔ ان کی جانب سے طالبان کو تسلیم کرنے کے کسی بھی ارادے کو ماسکو کے تازہ فیصلے سے دھچکا لگ سکتا ہے۔

تاہم پاکستان نے گذشتہ دنوں کابل میں اپنے سفیر کو اپ گریڈ کیا ہے۔ البتہ دیکھنا یہ ہے کہ اسلام آباد طالبان حکومت تسلیم کرنے میں روس کی تقلید کرتا ہے یا مغرب کا انتظار۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر