کراچی میں نئی سٹیل مل لگانے کے حتمی معاہدے پر کام شروع: روسی قونصل جنرل

روسی قونصل جنرل آندرے وی فیدوروف کا کہنا ہے کہ ’کراچی میں نئی سٹیل مل کی تعمیر کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

8 فروری، 2016 کو کراچی، پاکستان کے مضافات میں پاکستان سٹیل ملز کے ہاٹ سٹرپ مل ڈیپارٹمنٹ میں ایک شخص مشینوں کے پاس سے گزر رہا ہے (روئٹرز)

روس نے پیر کو پہلی بار سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کراچی میں ایک نئی سٹیل مل قائم کرنے کے معاہدے کو اس موسمِ گرما میں حتمی شکل دینے کی توقع رکھتا ہے۔

یہ بات روس کے قونصل جنرل آندرے وی فیدوروف نے ’عرب نیوز‘ کو ایک انٹرویو میں بتائی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آخری مذاکرات 27 مئی کو ہوئے تھے، اور اب ہم حتمی معاہدے پر کام کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے تکنیکی ماہرین نے اس جگہ کا معائنہ کیا ہے، شاید ایک اور ٹیم جلد آ جائے گی، تاکہ تمام تیاریوں کو حتمی شکل دی جا سکے۔ کچھ تجاویز دونوں روسی اور پاکستانی فریقوں کے سامنے زیرِ غور ہیں۔ ہم کراچی میں نئی سٹیل مل کی تعمیر کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘

فیدوروف نے تعمیر کے آغاز کی کوئی تاریخ بتانے سے گریز کیا، لیکن کہا کہ فریقین کے درمیان موسمِ گرما میں معاہدے پر بات ہو رہی ہے۔

اس سے قبل مئی میں وفاقی وزارت صنعت و پیداوار نے ایک اعلامیے میں کہا تھا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر خان اور روس کے نمائندے ڈینس نازروف پاکستان میں نئی سٹیل ملز کے قیام کے بارے میں تفصیلی بات چیت ہوئی ہے جس میں دونوں ممالک نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے اور اس پر عمل درآمد کے لیے مشترکہ ورکنگ گروپ تشکیل دینے پر اتفاق کیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روسی اور پاکستانی حکام ایک نئے سٹیل مل کے فریم ورک کو حتمی شکل دینے کے لیے تکنیکی اور سفارتی مذاکرات میں مصروف ہیں۔ روس کے تکنیکی ماہرین پہلے ہی کراچی میں مجوزہ مقام کا معائنہ کر چکے ہیں، جب کہ ایک اور ٹیم جلد متوقع ہے، جو منصوبہ بندی کو آگے بڑھائے گی اور تفصیلی روڈ میپ تیار کرے گی۔

اس سال مئی میں وزیراعظم کے مشیر برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان نے بزنس ریکارڈر کو بتایا تھا کہ پاکستان نے روسی حکام کو آگاہ کیا کہ حکومت نے پاکستان سٹیل ملز کی 700 ایکڑ اراضی کو نئی سٹیل مل قائم کرنے کے لیے مختص کر دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مذکورہ جگہ کراچی میں پورٹ قاسم کے قریب واقع ہے، جس سے خام مال کی نقل و حمل کے اخراجات میں کمی آئے گی۔ پاکستان کے صنعتی اور زرعی ماہرین روس کا دورہ کرنے والے ہیں، جو دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں اہم قدم ثابت ہو گا۔‘

ہارون اختر کے مطابق ’پاکستان کے پاس 1.887 ارب ٹن کے تخمینی ذخائر کے ساتھ آئرن ایسک کے قابل قدر ذخائر موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود پاکستان کو سالانہ 2.7 ارب ڈالر کی مالیت کا آئرن اور سٹیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔‘

سوویت یونین نے 1970 کی دہائی میں کراچی میں پاکستان سٹیل مل تعمیر کی تھی، جو ملک کا سب سے بڑا سرکاری صنعتی ادارہ تھا۔ ایک وقت میں قومی خود کفالت کی علامت سمجھی جانے والی یہ سٹیل مل 2015 سے بند پڑی ہے، جس کی وجہ برسوں کی بدانتظامی، سیاسی مداخلت اور مالی بحران ہے۔

مالی سال 2024 کے اختتام پر اس کے مجموعی نقصانات 255.8 ارب روپے اور واجبات 359.9 ارب روپے تک پہنچ چکے تھے۔ غیر فعال ہونے کے باوجود اب بھی اس میں ساڑھے تین ہزار سے زائد ملازمین کام کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت