یوم آزادی پر کچھ خود احتسابی بھی

آئیں یومِ آزادی کو صرف تقریبات تک محدود نہ رکھیں، بلکہ خود احتسابی اور نئے عزم کا دن بنائیں۔

پاکستان مرکزی مسلم لیگ (پی ایم ایم ایل) کے اراکین 14 اگست 2025 کو کوئٹہ میں ملک کے یوم آزادی کی تقریبات میں ایک کلومیٹر لمبا قومی پرچم تھامے ہوئے ہیں (بنارس خان / اے ایف پی)

پاکستان کا یوم آزادی ہر سال ملی جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے، لیکن اس سال یہ جشن ایک اور خاص موقعے کے ساتھ آیا، یعنی دشمن کے حملے کو پسپا کر کے ایک بار پھر اپنی فضائی برتری کو ثابت کرنے کا اعزاز۔

اس سال جون 2025 میں انڈیا نے ایک بار پھر پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، جس کا پاکستان فضائیہ نے مؤثر اور بروقت جواب دیا۔

اس کارروائی میں انڈیا کا جدید اور مہنگا ترین رفال طیارہ مار گرایا گیا، جو انڈین میڈیا اور حکومت کے لیے شرمندگی کا باعث بنا، جبکہ پاکستان میں یہ قومی فخر اور اعتماد کی علامت بن گیا۔

یہ واقعہ نہ صرف ہماری عسکری مہارت اور دفاعی تیاری کا ثبوت ہے بلکہ دشمن کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان نہ صرف امن کا خواہاں ہے بلکہ کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

اس کارروائی نے 27 فروری، 2019 کے تاریخی دن کی یاد تازہ کر دی، جب پاکستان فضائیہ نے انڈین مگ 21 طیارہ مار گرایا تھا اور ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار کر کے دنیا بھر میں پاکستان کی عسکری برتری کے ساتھ اخلاقی برتری بھی منوائی تھی۔

جون 2025 کے اس کامیاب دفاعی ردعمل کے بعد یوم آزادی کی تقریبات میں ایک نیا رنگ بھر گیا ہے۔

ملک بھر میں مختلف تقاریب کا انعقاد ہو رہا ہے، جن میں ملی نغموں، دستاویزی فلموں اور موسیقی کے شوز کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور کوئٹہ جیسے بڑے شہروں میں آتش بازی کے شاندار مظاہرے کیے جا رہے ہیں، جو ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہروں میں شمار ہو رہے ہیں۔

ریلیوں، پریڈز اور تقاریر کے ذریعے عوام اور افواج کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ خوشی بجا ہے اور فخر بھی لازم ہے لیکن اس جشن کے ہنگام میں ہمیں اپنا احتساب کرنا نہیں بھولنا چاہیے۔

جشن آزادی صرف دشمن کے خلاف فتح کا دن نہیں، بلکہ خود سے سوال پوچھنے کا موقع ہے کہ ہم بطور قوم کس مقام پر کھڑے ہیں؟

کیا ہم صرف عسکری کامیابیوں پر مطمئن ہو کر باقی معاملات کو نظرانداز کر سکتے ہیں؟

قائداعظم محمد علی جناح نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا، وہ صرف ایک مضبوط فوجی ریاست نہیں بلکہ ایک مضبوط جمہوری اور فلاحی ریاست تھا۔

انہوں نے 14 جون، 1948 کو کوئٹہ میں سٹاف کالج کے فوجی افسران سے خطاب کرتے ہوئے واضح الفاظ میں فرمایا۔

’ہمیشہ یاد رکھیں کہ آپ ریاست کے خادم ہیں۔ قومی پالیسی بنانا آپ کا کام نہیں۔ یہ ہم، سویلین، ہیں جو ان فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں اور آپ کا کام یہ ہے کہ دی گئی ہدایات کو عملی جامہ پہنائیں۔‘

افسوس کہ آج ہم اس رہنمائی سے کوسوں دور جا چکے ہیں۔ جمہوریت کمزور ہے، سیاسی حکومتیں دباؤ میں ہیں اور پارلیمان اپنی حیثیت کھوتی جا رہی ہے۔

آئین، جو ریاست کا سب سے اہم معاہدہ ہے، بار بار پامال ہو رہا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی، جو کسی بھی جمہوری معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے، آج کچلی جا رہی ہے۔

صحافی اغوا ہوتے ہیں، میڈیا ادارے سینسر شپ کے شکنجے میں ہیں اور اختلاف رائے کو غداری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر رائے دینے والوں کے خلاف مقدمے، گرفتاریاں اور دھمکیاں ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟

اندرونی طور پر ملک اس وقت شدید چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، ادارہ جاتی کرپشن اور سیاسی عدم استحکام تو پہلے سے موجود ہیں، لیکن حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔

خیبرپختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں سکیورٹی فورسز، پولیس اور شہریوں پر حملے ایک بار پھر شدت اختیار کر گئے ہیں۔

ان حملوں کی ذمہ داری کبھی ٹی ٹی پی لیتی ہے اور کبھی بلوچ علیحدگی پسند کالعدم تنظمیں جبکہ ریاستی ادارے اس بڑھتی ہوئی لہر کو روکنے میں مشکلات کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کیا ہم ایسی صورت حال میں صرف دشمن سے جنگ جیت کر مطمئن ہو جائیں؟

کیا ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ دشمن صرف سرحد پار سے نہیں آتا بلکہ جب عوام کو انصاف، روزگار، تعلیم اور تحفظ نہ ملے تو وہ خود اپنی ریاست سے بیگانہ ہو جاتے ہیں اور یہی بیگانگی کسی بھی ملک کے لیے اندرونی دشمن سے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ملک کی 24 کروڑ آبادی میں اکثریت نوجوانوں کی ہے، جن کی امیدیں مایوسی میں بدل رہی ہیں۔

وہ نوجوان جو جدید دنیا سے جڑنا چاہتے ہیں، وہ اظہار کی آزادی چاہتے ہیں، وہ موقع چاہتے ہیں کہ وہ اپنے ملک کی بہتری میں کردار ادا کریں۔ لیکن اگر انہیں دبایا جائے گا تو یہ محرومی ریاست کے لیے خود سب سے بڑا چیلنج بن جائے گی۔

آج کا دن تقاضا کرتا ہے کہ ہم صرف بیرونی فتوحات پر نہ جھومیں بلکہ اندرونی کمزوریوں کا بھی ادراک کریں۔

ہمیں اپنی جمہوریت کو مستحکم کرنا ہوگا، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہوگا، صحافت اور رائے کی آزادی کو تحفظ دینا ہوگا اور سب سے بڑھ کر اپنی عوام کو عزت، مواقع اور سچائی دینی ہوگی۔

تو آیئے، اس یومِآزادی کو صرف قومی پرچم لہرانے، آتش بازی دیکھنے اور ملی نغمے گانے تک محدود نہ رکھیں۔

اس دن کو اپنے اندر جھانکنے، اپنی کوتاہیوں کو پہچاننے، اور ایک نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کا دن بنائیں۔

یہی جشنِ آزادی کا اصل مقصد ہے — اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک بہتر، مضبوط، اور خوشحال پاکستان کی طرف لے جائے گا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ