پاکستان کے یوم آزادی پر پرچموں اور دیگر اشیا کا ’اربوں روپے‘ کا کاروبار

کراچی میں پرچم بنانے والی فیکٹری ’وی آئی فلیگ‘ کے مالک عدیل احمد کے مطابق: ’اگر اس کاروبار کو قومی سطح پر دیکھا جائے تو اس کا حجم اربوں روپے تک جا پہنچتا ہے۔‘

کراچی میں قومی پرچم بنانے والی فیکٹری ’وی آئی فلیگ‘ کے مالکان کا کہنا ہے کہ جشن آزادی کے موقعے پر ملک بھر میں قومی پرچم، جھنڈیوں اور دیگر اشیا کے کاروبار کا حجم اربوں روپے تک جا پہنچتا ہے، جس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔

پاکستان نے رواں برس مئی میں انڈیا سے جنگ میں فیصلہ کن کامیابی حاصل کی، جس کے بعد عوامی سطح پر اس سال جشنِ آزادی کے لیے جوش و جذبے میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

ملک بھر میں گلیوں، بازاروں، گھروں اور عمارتوں کو سبز ہلالی پرچموں سے سجا دیا گیا ہے اور شہریوں کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے، ’پاکستان ہمیشہ زندہ باد!‘

فیلڈ مارشل عاصم منیر کی جانب سے دیا گیا نعرہ ’پاکستان ہمیشہ زندہ باد‘ اس سال جشنِ آزادی کا مرکزی نعرہ بن چکا ہے اور اسی نعرے کو بنیاد بنا کر مختلف نئی مصنوعات مارکیٹ میں متعارف کروائی گئی ہیں۔

اسی حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے کراچی میں پرچم بنانے والی بڑی فیکٹریوں میں شامل ’وی آئی فلیگ‘ کا دورہ کیا، جو 1980 سے کراچی کے علاقے کورنگی میں قائم ہے۔

فیکٹری میں جشن آزادی سے متعلق پرنٹنگ کا کام چل رہا تھا، جو پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد چھوٹے بڑے پرچموں کی کٹنگ کی جاتی ہے اور پھر سلائی کے بعد انہیں پیک کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فیکٹری کے مالک محمد عزیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’فیکٹری میں مختلف چیزیں مینوفیکچر کی جا رہی ہیں، جن میں جھنڈوں سمیت مفلرز، کیپس، ٹی شرٹس اور خواتین کی قمیضیں بھی شامل ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’یہ اشیا خاص طور پر نوجوانوں میں مقبول ہو رہی ہیں اور ہر سٹال پر ان کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ عملہ معمول سے زیادہ بڑھا دیا گیا ہے کیونکہ جشنِ آزادی کا سیزن ان دنوں عروج پر ہوتا ہے۔‘

محمد عزیر کا کہنا تھا کہ ’اس وقت پانچ ہزار لوگوں کا روزگار چل رہا ہے۔ ریٹیلرز کو ملا کر ان کی تعداد دگنی اور تگنی ہو جاتی ہے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ایک بہت بڑی تعداد اس کروبار سے جڑ جاتی ہے اور خوب منافع کماتے ہیں۔‘

’وی آئی پی فلیگ‘ کی ایک شاخ سے وابستہ مالک عدیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جشن آزادی کے سیزن میں پرچم، بیجز، سٹیکرز اور دیگر اشیا کی طلب میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگرچہ ہمارا کاروبار پورا سال جاری رہتا ہے، مگر اگست کے مہینے میں جوش و خروش نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس سال بھی ملک بھر سے بالخصوص سیاسی، بلدیاتی اور سماجی اداروں کی جانب سے بڑی تعداد میں آرڈرز موصول ہوئے ہیں۔ ہر سال جنوری سے مارچ کے درمیان پیشگی آرڈرز آنا شروع ہو جاتے ہیں جبکہ بیرونِ ملک سے آنے والے آرڈرز کو جون کے وسط تک مکمل کر کے روانہ کر دیا جاتا ہے۔‘

ریونیو کے حوالے سے عدیل نے بتایا کہ ’سیزنل کاروباری افراد، جو عام طور پر پتھاروں یا عارضی سٹالوں پر یہ اشیا فروخت کرتے ہیں، عموماً ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور سیزن کے اختتام تک 10 لاکھ روپے تک منافع کما لیتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ان کی فیکٹری میں یہ مصنوعات سارا سال تیار ہوتی رہتی ہیں، لیکن اصل منافع جشنِ آزادی کے سیزن میں حاصل ہوتا ہے۔

بقول عدیل: ’اگر اس کاروبار کو قومی سطح پر دیکھا جائے تو اس کا حجم اربوں روپے تک جا پہنچتا ہے۔ صرف کراچی اور سندھ کی سطح پر ہی اس کا تقریباً آدھا ریونیو پیدا ہو جاتا ہے، جو اس شعبے کی معاشی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔‘

پتھارے پر جشن آزادی کا سامان بیچنے والے شہریار ایک سرکاری ملازم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہر سال اگست کے مہینہ میں سٹال لگاتے ہیں، جس میں وہ 50 ہزار روپے کا سرمایہ لگا کر چھوٹے بچوں کے کپڑے فروخت کرتے ہیں اور انہیں منافع دگنا ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ اگر بارش ہو جائے تو کبھی کبھی نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔

کراچی کی پرچم گلی میں جشن آزادی کی مناسبت سے روپا نامی خاتون باجے فروخت کرتی دکھائی دیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عام طور پر وہ ایمپریس مارکیٹ میں میوہ جات فروخت کرتی ہیں لیکن اس ایک ماہ کا کام ان کے لیے منافع بخش ثابت ہوتا ہے۔

بقول روپا: ’اگست کا مہینہ سیزن ہوتا ہے کمانے کا، اسی لیے میں باجے بیچ رہی ہوں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت