پاکستان کے قومی پرچم کے بارے میں وہ باتیں جو آپ نہیں جانتے

خلافت عثمانیہ کے لوگو پر دو جھنڈے کندہ ہیں، ایک سبز اور دوسرا سرخ رنگ کا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے سبز جھنڈا اپنے لیے چنا اور اسی میں سفید حصہ شامل کر کے پاکستان کا قومی پرچم بنایا گیا۔

(اینواتو)

پرچم کسی بھی ملک کی قومی علامت ہوتا ہے۔ قدیم جنگوں میں بھی جب تک پرچم سرنگوں نہیں ہو جاتا تھا معرکہ جاری رہتا تھا چاہے کتنی ہی ندیاں خون کی بہہ جائیں۔

آج کی دنیا میں بھی ہر ملک کی پہچان اس کے قومی جھنڈے سے ہوتی ہے۔ دنیا میں پہلا جھنڈا کب اور کہاں لہرایا گیا؟ اس کے بارے میں مستند روایات تو کہیں دستیاب نہیں، تاہم قدیم مصر کے برتنوں پر پرچم کی شبیہ ملی ہے۔

پہلے پرچم کی شکل کیا ہو گی اور یہ کسی غار کے دہانے پر لہرایا گیا ہو گا یا سمندر میں کسی کشتی پر؟ اس بارے میں قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔

اگست کا مہینہ جاری ہے۔ ہر سال یوم آزادی پر قومی پرچموں کی بہار آتی ہے۔ گلیاں، سڑکیں، گھر اور گاڑیاں قومی پرچموں سے سج جاتی ہیں۔ لوگ وطن سے محبت کا اظہار قومی پرچم لگا کر کرتے ہیں۔

لیکن اس پرچم کا آغاز کیسے ہوا؟ اسے کس نے ڈیزائن کیا اور اس کے ساتھ کیا علامتیں جڑی ہوئی ہیں۔ ان کے بارے میں ہم  بہت ہی کم جانتے ہیں۔

کیا قومی پرچم خلافت عثمانیہ کے  لوگو سے لیا گیا ہے؟

تاریخی طور پر پاکستان کے قومی پرچم کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اس پرچم سے لیا گیا ہے، جو 30 دسمبر 1906 کو مسلم لیگ کے تاسیسی  اجلاس میں ڈھاکہ میں لہرایا گیا تھا۔ اس پرچم کا رنگ سبز تھا اور اس کے درمیان سفید چاند ستارہ بنا ہو اتھا۔ تاہم یہ بات بھی حیرت انگیز ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی طاقت خلافت عثمانیہ کے لوگو میں جو دو جھنڈے موجود ہیں ان میں ایک یہی جھنڈا ہے، جسے آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنایا اور دوسرا جھنڈا وہ ہے، جو آج ترکیہ کا قومی جھنڈا ہے۔ گویا پاکستان کے قومی جھنڈے کی بنیادیں خلافت عثمانیہ کے قومی لوگو میں ملتی ہیں۔

خلافت عثمانیہ سے انڈیا کے مسلمانوں کی دلی وابستگی تھی، اس لیے شاید آل انڈیا مسلم لیگ نے اس جھنڈے کو اسی  نسبت سے اپنایا ہو گا۔

جب ترکی کی خلافت کو خطرات لاحق ہوئے تو یہی انڈیا کی مسلم قیادت تھی، جو اس کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ بعد میں جب قومی پرچم کی تخلیق کا وقت آیا تو تب بھی اسی جھنڈے کو معمولی ترمیم کے بعد اختیار کر لیا گیا۔

قومی پرچم کی منظوری کے وقت اقلیتوں نے مخالفت کیوں کی؟

پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا اجلاس 11 اگست 1947 کو قائد اعظم کی صدارت میں منعقد ہوا تو لیاقت علی خان نے قومی پرچم کی  قرارداد پیش کی۔ اس موقع پر انہوں نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ’کسی قوم کا پرچم محض کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں ہوتا بلکہ اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ کس کی نمائندگی کرتا ہے۔ میں یہ بات بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ جو پرچم میں نے پیش کیا ہے وہ ان لوگوں کی آزادی، حریت اور مساوات کا ضامن ہے، جو اس سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔‘

لیاقت علی خان کی ا س تقریر کے جواب میں لالہ بھیم سین سچر نے تقریر کرتے ہوئے  کہا کہ اقلیتی فرقے چاہتے ہیں کہ وہ بھی کسی نہ کسی شکل میں پاکستان کی ریاست میں اپنے حصے کی نمائندگی کر سکیں اور انہیں یہ محسوس ہو کہ وہ ہر قدم پر پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس لیے کیا ہی بہتر ہوتا کہ جھنڈے کی تیاری میں اقلیتوں کی بھی رائے لی جاتی۔‘

اس پر لیاقت علی خان نے جواب دیا کہ ’یہ وہ جھنڈا نہیں ہے، جو مسلم لیگ کا جھنڈا تھا۔ 15 اگست کا تاریخی دن بہت نزدیک ہے اس لیے ہم نے ضروری سمجھا کہ اس روز پاکستان کا پرچم ہر صورت میں لہرانا چاہیے۔ ہم نے سفید رنگ کو جھنڈے میں نمایاں جگہ دینے کی کوشش کی ہے اور یہ رنگ جھنڈے کے ایک چوتھائی حصہ میں آیا ہے، جو اقلیت کی نشاندہی کرتا ہے۔‘

جب جھنڈے پر دستور ساز اسمبلی میں ووٹنگ کرائی گئی تو اسمبلی نے جھنڈے کی اکثریت سے منظوری دے دی، جس کے بعد کرن شنکر رائے نے تقریر کرنا چاہی تو قائد اعظم نے کہا کہ ہر چند منظوری کے بعد تقریر کا جواز نہیں تاہم انہوں نے اجازت دے دی تھی۔

کرن شنکر رائے نے کہا: ’ہم ایوان کے اس فیصلے کے بعد اس پرچم کو پاکستان کے قومی پرچم کے طور پر قبول کرتے ہیں۔‘ اس پر ایوان تالیوں سے گونج اٹھا۔

قومی پرچم کس نے بنایا تھا؟

امریکہ سے چھپنے والا ہفت روزہ لائف میگزین، جس کی اشاعت 1883 میں شروع ہوئی تھی اور جو ہندوستان کی اینگلو انڈین کمیونٹی میں مقبول تھا، کے 18 اگست 1947 کے خصوصی شمارہ ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے تھا، جس کے سرورق پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تصویر چھپی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی شمارے کے اندرونی صفحات پر ایک تصویر ایسی بھی تھی، جس میں دہلی کے ایک درزی کی دکان پر پاکستان کا قومی پرچم سیا جا رہا تھا۔ یہ ٹیلر ماسٹر افضل حسین اور ان کے بھائی الطاف حسین تھے، جو پاکستان بننے کے بعد کراچی آ گئے تھے۔ یہ دونوں بھائی 8 مئی 1979 کو اس وقت کے صدر ضیاالحق سے کراچی میں ملے تھے اور انہیں لائف میگزین کی وہ تصویر دکھائی، جس میں وہ پاکستان کا پہلا قومی پرچم تیار کر رہے تھے۔

ضیاالحق نے ان سے پوچھا کہ اس کا ڈیزائن کس نے تیار کیا تھا تو انہوں نے سید امیرالدین قدوائی کا نام لیا تھا۔

سید امیرالدین قدوائی تحریک پاکستان کے ممتاز کارکن  تھے، جن کے بیٹے اور مرحوم صحافی سید انور قدوائی نے اپنے والد کے حوالے سے یہ واقعہ اپنی کتاب ’قومی پرچم کی کہانی‘ (ناشر نیشنل بک فاؤنڈیشن) میں درج کیا ہے۔

بعدازاں ضیاالحق نے ماسٹر افضل حسین کے لیے قومی ایوارڈ اور نقد انعام کا بھی اعلان کیا تھا۔

لیاقت علی خان نے بھی دستور ساز اسمبلی کو بتایا تھا کہ یہ پرچم قائد اعظم کی ہدایت پر دہلی میں تیار کیا گیا تھا اور اس کی تیاری میں مولانا امیر الدین قدوائی، مولانا سید غلام بھیک نیرنگ اور علامہ راغب حسین شامل تھے۔

امیر الدین قدوائی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور انہوں نے ہی ڈاکٹر سید ظفر الحسن اور ڈاکٹر افضال حسین قادری کے ساتھ مل کر 1939 میں علی گڑھ پاکستان سکیم پیش کی تھی، جو آگے چل کر 1940 میں قرارداد پاکستان کی بنیاد بنی۔

مولانا میر غلام بھیک نیرنگ انبالوی وکیل تھے اور 1938 میں انہیں قائد اعظم نے مرکزی اسمبلی میں مسلم لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا ڈپٹی لیڈر بنایا تھا۔ یہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے بھی ممبر تھے۔

علامہ راغب حسین بھی تحریک پاکستان کے نامور کارکن تھے، جو 1946 کے انتخابات میں کلکتہ سے دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور نوائے وقت کے اعزازی مدیر بھی رہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ