پاکستان میں روشن خیالی ایک ایسا لفظ ہے جسے سنتے ہی بحث و تکرار شروع ہو جاتی ہے۔ کوئی اسے مذہب بیزاری کا ہم معنی سمجھتا ہے، کوئی مغرب کی اندھی تقلید تو کوئی اسے روایتی اقدار کے زوال کی علامت گردانتا ہے۔
لیکن اگر اس تصور کی اصل اور اس کا تاریخی پس منظر سمجھا جائے تو حقیقت اس کے برعکس ہے۔
روشن خیالی دراصل انسانی وقار، فکری آزادی اور معاشرتی ترقی کا دوسرا نام ہے، وہ روشنی جس کے بغیر کوئی معاشرہ مہذب نہیں بن سکتا۔
یہ سوچ اپنی جدید شکل میں یورپ کے نشاۃ ثانیہ اور ’دور روشن خیالی‘ سے ابھری، جب صدیوں کے جمود اور کلیسائی جبر کو توڑنے کے لیے فلسفیوں نے عقل و دلیل کو معیار بنایا۔
جان لاک نے ریاست کو فرد کی آزادی کا محافظ قرار دیا، جان سٹورٹ مل نے آزادیٔ اظہار کو انسانی ترقی کی لازمی شرط بتایا، والٹیئر نے مذہبی جبر کے خلاف علم بلند کیا اور روسو نے عوام کی مرضی کو ریاست کی بنیاد ٹھہرایا۔
یہ سب اس بات پر متفق تھے کہ خوف اور جبر کے ماحول میں انسان تخلیق اور سوال کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔
لیکن روشن خیالی کوئی مغربی ایجاد نہیں۔ اسلامی تہذیب میں بھی عقل و استدلال کی ایک روشن روایت موجود ہے۔
عباسی دور میں معتزلہ نے عقلی کلام کی بنیاد رکھی، ابن رشد نے فلسفے اور مذہب کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی، الفارابی نے مثالی ریاست کا تصور پیش کیا اور ابن خلدون نے علمِ عمرانیات کا بیج بویا۔
قرآن بار بار غور و فکر، سوال اور تدبر کی دعوت دیتا ہے۔ پیغمبر اسلام ﷺ نے مدینہ میں مذہبی رواداری اور قبائلی معاہدات سے ایسی مثال قائم کی جو آج بھی رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔
پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے خیالات بھی اسی روایت سے جڑے ہوئے تھے۔ 11 اگست، 1947 کے تاریخی خطاب میں انہوں نے کہا کہ ریاست کا کام شہریوں کے مذہبی عقائد میں مداخلت نہیں اور ہر شخص اپنے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد ہے۔
یہ ایک ایسی ریاست کا خاکہ تھا جہاں فکری اور مذہبی آزادی ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد یہ سوچ بتدریج کمزور پڑتی گئی۔
1970 کی دہائی کے آخر اور 1980 کی دہائی، خصوصاً جنرل ضیا الحق کے دور میں، ریاستی بیانیے میں مذہب کو اس انداز سے شامل کیا گیا کہ لبرل اور روشن خیال جیسے الفاظ کو غیر اسلامی اور مغرب زدہ بنا کر پیش کیا جانے لگا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روشن خیالی کا مطلب اپنی اقدار سے انحراف نہیں، بلکہ انہیں عقل و دلیل کی روشنی میں بہتر بنانا ہے۔
میڈیا کو سنسنی پھیلانے کی بجائے دلیل پر مبنی مباحث کو فروغ دینا چاہیے۔ مذہبی و سیاسی قیادت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اختلاف رائے دشمنی نہیں، بلکہ ترقی کی بنیاد ہے۔
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
(ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائد اعظم یونیورسٹی کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)