سلطنتیں اپنا اقتدار کیسے مضبوط کرتی ہیں؟

سامراجی ملک کے لیے اہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ مفتوح ملک کو کیسے قابو میں رکھا جائے۔ ان کی اشرافیہ کو ان کے ساتھ ملایا جائے اور انتظامات کے ذریعے عام لوگوں کو مطمئن رکھا جائے یا جبر کے ذریعے لوگوں میں ڈر اور خوف پیدا کیا جائے؟

جب کوئی سامراجی طاقت فوج کی مدد سے کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے تو اس کے اصل مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب اسے مفتوح آبادی کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے (پبلک ڈومین)

 

جب کوئی ریاست اپنی فوجی طاقت کے ذریعے دوسرے ملکوں پر قبضہ کرتی ہے تو وہ قومی ریاست کی جگہ ایک بڑی سلطنت بن جاتی ہے، جس میں کئی قومیں آباد ہوتی ہیں، کئی زبانیں بولی جاتی ہیں اور کئی کلچر باعمل ہوتے ہیں اور سلطنت کے انتظامات کے لیے تجربہ کار سرکاری عہدیداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔

جب کوئی سامراجی طاقت فوج کی مدد سے کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے تو اس کے اصل مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب اسے مفتوح آبادی کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔

شکست خوردہ آبادی کی اشرافیہ سامراجی ملک کی حاکمیت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہوتی ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں ان کی مراعات اور جائیداد خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جہاں تک عام لوگ کا تعلق ہے۔ ان کی محرومی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، اس لیے ان کے لیے بیرونی یا ملکی آقاؤں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

سامراجی ملک کے لیے اہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ مفتوح ملک کو کیسے قابو میں رکھا جائے۔ کیا ان کے ساتھ تعاون کیا جائے، ان کی اشرافیہ کو ان کے ساتھ ملایا جائے اور انتظامات کے ذریعے عام لوگوں کو مطمئن رکھا جائے یا اپنے تسلط کے لیے فوجی طاقت کو استعمال کیا جائے اور جبر کے ذریعے لوگوں میں ڈر اور خوف پیدا کیا جائے؟

ان دونوں پالیسیوں کو نافذ کرنے کا کام سرکاری عہدیداروں کا ہوتا ہے، جو اپنے تجربے اور فہم کے ذریعے سامراجی سلطنت کو مضبوطی کے ساتھ قائم رکھتے ہیں۔

یہاں ہم چند مثالوں کے ذریعے ان پر تفصیل سے بات کریں گے۔ چین کا سونگ خاندان (960 سے 1279) جس کی پہلے جنوبی چین میں حکومت تھی، بعد میں یہ شمالی چین چلا گیا تھا۔

اس خاندان کی ریاست میں صنعت و حرفت میں ترقی ہوئی۔ اس کے تاجر جنوب مشرق کے ملکوں میں سامان تجارت لے کر جاتے تھے۔ اس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ کاغذی کرنسی کو ایجاد کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیوروکریسی کا ادارہ قدیم چین میں وجود میں آیا تھا، جو کنفیوشس کی تعلیمات پر عمل کرتا تھا۔ جب جنوبی چین میں اس کا اقتدار ختم ہوا تو یہ شمالی چین میں منتقل ہو گیا، جہاں اس نے اپنے اقتدار کی ضمانت کے لیے مقامی باشندوں سے اچھے تعلقات رکھے۔ سرکاری عہدیداروں نے رعایا کے ساتھ دوستانہ روابط قائم کیے، جس کی وجہ سے سونگ خاندان عوام میں مقبول ہو گیا مگر اس کا خاتمہ اس وقت ہوا، جب منگولوں نے چین پر حملہ کرکے اس کے حکمران کو شکست دی۔

قبلائی خان جو منگول خاندان کا سربراہ تھا، جب چین کا حکمران بنا تو وہ اپنے ساتھ ایرانی عہدیداروں کو لایا۔ قبلائی خاندان نے سونگ خاندان کے ایک وزیر سے جو بےانتہا ذہین اور تجربے کار تھا، اپنی سلطنت میں شامل ہونے کو کہا تو اس نے جواب دیا کہ وہ دو آقاؤں کا وفادار نہیں ہو سکتا۔

قبلائی خان نے، بجائے اس کے کہ اس کا خیال رکھتا، ناراض ہو کر اسے قتل کروا دیا۔ منگول اپنی چینی رعایا کو مطمئن نہیں رکھ سکے اور منگ خاندان نے انہیں 1368 میں چین سے نکال دیا۔

دوسری مثال ہم عرب سلطنت سے دیتے ہیں۔ جب امیہ خاندان کے عہد میں شام کو فتح کیا گیا تو عربوں کے پاس سیاست کا کوئی تجربہ نہ تھا، لہٰذا انہوں نے شام میں بازنطین کے عہدیداروں سے مدد لی اور یونانی زبان کو کچھ عرصے سرکاری زبان کے طور پر بھی قائم رکھا۔ جب عباسی خاندان اقتدار میں آیا تو ان کی مدد کرنے والے ایرانی تھے، لہٰذا عباسی دور میں ان کی بیوروکریسی پر ایرانیوں کا تسلط تھا، جن میں برمکی خاندان سب سے نمایاں تھا۔

ایرانیوں نے عباسی دربار میں ساسانی عہد کی رسومات، ادب و آداب اور تہواروں کو روشناس کروایا۔ اس عہد میں عربوں کی حیثیت کم تر ہو گئی تھی۔ ایرانی عہدیداروں نے غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ رواداری کا سلوک کیا اور عباسی عہد میں علمی ترقی کی طرف توجہ دی۔

تیسری مثال عثمانی سلطنت کی ہے۔ 1453 میں سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر کے عثمانی خاندان کے اقتدار کو قائم کیا تھا۔ عثمانی ترکوں کی حکمرانی کے لیے سلطنت میں سخت مسائل تھے کیونکہ یہاں مسیحی، یہودی اور آرمینی اقلیتیں آباد تھیں۔ عثمانی حکومت انہیں امت کا نام دیتی تھی۔

امن و امان کی خاطر سرکاری عہدیداروں نے اس پالیسی کو اختیار کیا کہ ہر امت کو اپنے اندرونی معاملات میں مکمل آزادی تھی۔ مذہبی لحاظ سے بھی ان پر کوئی پابندی نہ تھی۔ یہ اپنے مذہبی رہنما منتخب کرتے تھے، جن کے حقوق کو سلطنت تسلیم کرتی تھی۔

20 ویں صدی میں جب عثمانی سلطنت کو زوال آ رہا تھا تو اس کے سرکاری عہدیداروں نے تنظیمات کے نام سے اصلاحات کا سلسلہ شروع کیا، جس میں تمام شہریوں کو دستور کے لحاظ سے حقوق دیئے گئے تھے۔

اب یہاں ہم برطانوی راج کے بارے میں ذکر کریں گے۔ 1757 میں جب رابرٹ کلائیو نے پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کو شکست دی تو اس نے میر جعفر کو نیا نواب بنانے کے عوض خطیر رقم بطور رشوت لی۔ دوسرے انگریز افسران بھی پیچھے نہیں رہے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین نے رشوت عطیات اور کسٹم ڈیوٹی سے فری تجارت کا مال فروخت کر کے دولت اکٹھی کی اور انگلستان واپس جا کر زرعی زمینیں خریدیں اور رہائش کے لیے محلات تعمیر کروائے۔ انگلستان کے لوگ انہیں ازراہ مذاق ’نو باب‘ کہتے تھے۔

جب ہندوستان میں کمپنی کا اقتدار پھیل گیا تو برطانوی پارلیمنٹ نے اس پر توجہ دی کہ کمپنی کی بیوروکریسی کو ایمان دار اور تجربہ کار ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے انڈین سول سروس کا ادارہ قائم کیا گیا۔ سول سروس کے امتحان کو پاس کرنا سخت مشکل تھا، لہٰذا اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین نوجوان کامیاب ہوتے تھے۔ ہندوستان میں انہیں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا جاتا تھا۔ ان کی تنخواہوں میں اور دوسروں کی تنخواہوں میں بڑا فرق تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں اچھی خاصی پنشن دی جاتی تھی۔

یہ اعلیٰ عہدیدار جب ہندوستان واپس آتے تھے تو یہ یہاں کے کلچر اور زبانوں سے ناواقف ہوتے تھے، اس لیے ان کے ماتحت نچلے عہدوں پر ہندوستانی ملازم ہوتے تھے اور یہ ان کی نگرانی کرتے تھے، مگر نچلے عہدیداروں میں دفتری کارروائی کی وجہ سے رشوت عام تھی۔ خاص کر پولیس کا محکمہ بڑا بدنام تھا۔ تمام قانونی سختیوں کے باوجود پولیس اور تھانے کے کلچر کو ختم نہیں کیا جا سکا۔

انگریز عہدیدار مقامی لوگوں سے بہت کم تعلقات رکھتے تھے۔ ان میں نسل پرستی اور قومی تعصبات بڑے گہرے تھے۔ ہندوستانیوں کو وہ غیر مہذب اور کم تر سمجھتے تھے۔ اگرچہ انگریزی عہد میں عام لوگوں کی بغاوتیں ضرور ہوئیں مگر انہیں کچل دیا گیا۔

سب سے بڑی بغاوت تو 1857 کی تھی، جس میں ہندوستانی ناکام ہوئے کیونکہ انگریزی فوج میں اکثریت ہندوستانیوں ہی کی تھی۔ پولیس اور مخبری کے اداروں میں بھی ہندوستانی ہی تھے، لہٰذا ہندوستانیوں نے انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنا ملک انہیں دے دیا۔

یورپی سامراجی ملکوں کی افریقہ میں یہ پالیسی تھی کہ قبیلے کے سردار کو اپنے عہدیداروں میں شامل کر کے اس کی مدد سے ٹیکس وصول کریں اور قبیلے کے لوگوں کو قابو میں رکھیں۔ جہاں ضرورت پڑی انہوں نے فوجی طاقت کے ذریعے بغاوتوں کو کچلا اور افریقی قبائل میں تقسیم کر کے ان کی طاقت کو کمزور کیا۔

ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ملک میں ان کی پالیسی مختلف تھی۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ سلطنت اپنے عہدیداروں کے ذریعے کن کن حربوں سے عوام پر اپنا تسلط قائم کرتی ہے تاکہ ان سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جا سکے۔

یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ