انڈیا کی جیلوں سے رہائی پانے والے 54 پاکستانی ماہی گیر واہگہ بارڈر کے راستے جب وطن واپس پہنچے تو ان کا استقبال جذبات سے بھرپور مناظر سے ہوا۔
ماہی گیروں کو ایدھی فاؤنڈیشن کی گاڑیوں کے ذریعے لاہور سے کراچی کے ایدھی سینٹر لایا گیا، جہاں ان کے اہل خانہ پہلے ہی بےقراری سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔
سینٹر کے باہر دھوپ میں تپتی سڑک پر کھڑے لوگ کچھ بےچین، کچھ پرامید اور کچھ آنکھوں میں آنسو لیے انتظار کر رہے تھے۔
یہ وہ خاندان تھے جن کے پیارے ماہی گیری کرتے ہوئے سرحد پار کر گئے تھے اور آٹھ سال انڈین جیلوں میں قید رہنے کے بعد بس پہنچنے ہی والے تھے۔
محمد سلیم کا خاندان بھی وہیں موجود تھا۔ ان کی بہن رخسانہ بار بار سڑک کی طرف دیکھتیں، کبھی فون کی سکرین پر وقت چیک کرتیں اور کبھی آنکھوں میں آنسو لیے خاموش ہو جاتیں۔
سلیم کے بچے، جو ان کی گرفتاری کے وقت بہت چھوٹے تھے، آج تقریباً جوان ہو چکے تھے۔ سب کے دل میں ایک ہی سوال تھا ابو کیسے ہوں گے؟
رخسانہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سلیم کے چھ بچے ہیں، جنہوں نے ان کی غیر موجودگی میں بہت کڑا وقت دیکھا۔
’حالات اتنے بگڑ گئے تھے کہ ان کی بیوی نے نوکری کر کے بچوں کی پرورش کی، مگر آج کے دن نے سب دکھ دھو دیے۔‘
رخسانہ کے مطابق ’ہم نے روز ان کی یاد میں گزارا۔ آج کا دن ہمیں عید سے کم نہیں لگ رہا۔‘
سلیم کے سب سے بڑے بیٹے محمد حسین، جو گرفتاری کے وقت صرف نو برس کے تھے، آج 17 سال کے ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا ’میں امی سے بار بار پوچھتا تھا کہ ابو کب آئیں گے، وہ ٹال دیتی تھیں۔ پھر مجھے سمجھ آ گیا کہ ابو انڈین جیل میں ہیں۔
’میں نے امی کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا لیکن ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب ابو کی یاد نہ آئی ہو۔ آج میں ان سے گلے لگوں گا اور وعدہ کرتا ہوں کہ ان کا سہارا بنوں گا۔‘
دوپہر کے قریب اچانک سائرن کی آواز گونجی اور سب کی نگاہیں اس سمت اٹھ گئیں جہاں سے ماہی گیروں کی گاڑی آنے والی تھی۔
جیسے ہی گاڑی رکی، دروازہ کھلا اور سب لوگ اپنے پیاروں سے بغل گیر ہونے لگے۔ سلیم کو دیکھ کر ان کی والدہ خوشی سے بے ہوش ہو گئیں۔
سلیم نے بتایا کہ ان کی آٹھ سال بعد وطن واپسی ہوئی ہے اور وہ اپنے بچوں اور خاندان سے ملنے کی خوشی میں تین دن سے سو نہیں سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آج جب اپنے وطن کی مٹی پر قدم رکھا، ایسا لگا جیسے دوبارہ جنم لیا ہو۔اپنی فیملی کو دیکھ کر میرے آٹھ سال کے دکھ دھل گئے۔‘
سلیم کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کی جیل میں ان کے ساتھ سلوک مناسب تھا۔ وہ قیدی بن کر بھی مزدوری کرتے رہے، وقت گزارا اور دل میں ہر پل اپنے گھر کی تصویر لیے زندہ رہے۔‘
ایدھی ترجمان محمد امین نے بتایا کہ ’ہر سال ایدھی فاؤنڈیشن ماہی گیروں کی رہائی کے عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اس بار بھی 54 ماہی گیروں کی وطن واپسی ایدھی ایمبولینس کے ذریعے ممکن ہوئی۔‘
اس موقعے پر فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کی چیئرپرسن فاطمہ مجید نے کہا ’سمندر میں ماہی گیری کے دوران اکثر پتہ نہیں چلتا کہ کب حدود کی خلاف ورزی ہو گئی۔
’موسم کی شدت یا سمندری بہاؤ کے باعث ماہی گیر انجانے میں انڈین حدود میں داخل ہو جاتے ہیں اور سالوں قید میں رہتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی 64 ماہی گیر انڈین جیلوں میں ہیں۔ ’بعض اوقات ایک ہی گھر کے چار افراد تک قید ہو جاتے ہیں اور ان کے گھر فاقوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں سوسائٹی رمضان اور جون جولائی میں تھوڑی بہت مدد کر پاتی ہے۔‘
فشر سجاگ فورم کے صدر محمد بخش نے اسے خوشی کا لمحہ قرار دیتے ہوئے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ وہ باقی ماہی گیروں کی رہائی کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔