بھارتی جیل میں دوا کے لیے بے ہوش ہونا پڑتا تھا: پاکستانی ماہی گیر

بھارتی قید سے پانچ سال بعد رہا ہو کر لوٹنے والے ٹھٹھہ کے ماہی گیر علی نواز بتاتے ہیں کہ جیل میں ان کی زندگی کیسی تھی۔

سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے ماہی گیر علی نواز پانچ سال قبل ساتھی ماہی گیروں کے ساتھ ایک چھوٹی کشتی میں دریائے سندھ میں مچھلی کا شکار کرنے نکلے تھے، انہیں مبینہ طور پر سمندری حدود کی خلاف ورزی پر بھارتی بحریہ کے اہلکاروں نے گرفتار کرلیا۔

علی نواز کو گذشتہ ماہ بھارتی قید سے تو رہائی مل گئی لیکن وطن واپسی پر انہیں پہلے لاہور میں تفتیش کا سامنا کرنا پڑا اور پھر انہیں کراچی پہنچایا گیا، جہاں سے وہ اپنے گھروں کو واپس جائیں گے۔

ٹھٹھہ کی تحصیل کیٹی بندر کے نواحی گاؤں جنگی سر کے رہائشی 30 سالہ علی نواز نے اپنی گرفتاری کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’سمندر میں ملکی سرحد کا ویسے تو پتہ نہیں چلتا، لیکن چونکہ ہم جدی پشتی ماہی گیر ہیں، اس لیے ہمیں پاکستان اور بھارت کی سرحد کا اندازہ سمندر میں ہوجاتا ہے۔

’ہم پاکستانی حدود میں ہی تھے کہ بھارتی نیوی کے اہلکار جدید بوٹس میں آئے اور ہمیں گھیر لیا۔‘

بھارتی بحریہ کے اہلکار علی نواز سمیت 25 ماہی گیروں کو گرفتار کرکے پہلے جکھو بندر لے گئے اور وہاں سے ایک چھوٹی جیل میں بھیج دیا۔

بعد میں انہیں ایک بڑی جیل منتقل کردیا گیا اور ان کے خلاف چلنے والے کیس کے بعد عدالت نے انہیں ساڑھے تین سال کی سزا سنائی، مگر علی نواز کے بقول پاکستانی حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث انہیں پانچ سال بعد رہائی ملی۔

علی نواز کے مطابق: ’ہم 17 فروری کو بھارتی جیل سے رہا ہوکر واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچے تو پاکستانی حکام نے ہمیں جیل میں ڈال دیا اور 35 دن تک ہم سے تفتیش کرتے رہے۔

’آخر کار ایدھی فاؤنڈیشن نے ہمیں لاہور سے کراچی پہنچایا اور اب ہم پانچ سال کے بعد گھر والوں سے مل رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علی نواز کے مطابق بھارتی جیل میں حالات انتہائی خراب تھے، کھانا انتہائی غیر معیاری ہوتا تھا اور انہیں بیمار ہونے پر علاج کی سہولیات بھی نہیں دی جاتی تھی۔

’جب بھی کوئی بیمار ہوتا اور ہم ان کے لیے جیل حکام سے دوائی مانگتے تو وہ دوائی نہیں دیتے تھے اور کہتے کہ جب بے ہوش ہوکر گر جاؤ گے تو پھر دوائی ملے گی۔ مجبور ہوکر ہمیں دوائی کے لیے بے ہوش ہونے کا ڈرامہ کرنا پڑتا۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ جس بھارتی جیل میں تھے وہاں 75 دیگر پاکستانی قیدی بھی موجود تھے۔

’جیل کی خراب حالت اور علاج کی سہولت نہ ہونے کے باعث ہمارے سامنے تین پاکستانی مختلف اوقات میں تڑپ ٹرپ کر ہلاک ہوگئے، جن کی لاشیں پاکستان بھیجی گئیں۔‘

علی نواز کے ساتھ کُل 25 ماہی گرفتار ہوئے تھے، مگر ان میں صرف چھ ماہی گیروں کو رہائی ملی باقی 19 تاحال قید ہیں۔

ماہی گیروں کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم پاکستان فشر فوک فورم کے رہنما سعید بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت بھارت کی مختلف جیلوں میں 116 پاکستانی قید ہیں۔

سعید بلوچ نے بتایا کہ یوں تو سرحد عبور کرنے کی قانون میں سزا تین مہینے ہے، لیکن گرفتار ماہی گیروں کو جنگی قیدی تصور کرکے انہیں اذیت دی جاتی ہے۔ ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ دیگر قیدیوں کو جلد از جلد رہا کیا جائے۔‘


بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان