ترغیب سے تربیت تک

موٹیویشنل سپیکرز کی ضرورت اور مقبولیت کیوں بڑھ رہی ہے؟

آج انسان جس قسم کے مقابلے کی دنیا میں جی رہا ہے، ایسے میں موٹیویشنل سپیکر کی گفتگو اہم ہوتی جا رہی ہے (اینواتو)

دل ٹوٹ جائے تو کیسے جھیلا جائے؟ پچھلے دنوں ’ٹیڈ ٹاک‘ پہ ایک موٹیویشنل سپیکر کا لیکچر سنا، جو انگریزی میں ایک ہال میں بیٹھے لوگوں کو سمجھا رہے تھے کہ کس طرح دماغ کی ان بتیوں کو گل کیا جائے جو کبھی کسی کے نام پہ جل جایا کرتی تھیں۔

وہ ترغیب دے رہے تھے کہ جب ’ہارٹ بریک‘ ہو جائے تو آگے بڑھنا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔

ان کو سننے والے اثبات میں کبھی سر ہلاتے، کبھی تالی بجا کے داد دیتے۔ وہ سبھی مجھے اس ترغیب سے قائل ہوتے لگے۔

ایک ترغیبی مبلغ یا موٹیویشنل سپیکر آخر کون ہوتا ہے؟ نفسیات کی طالبہ اور موٹیویشنل سپیکر شونزے سبطین کہتی ہیں ’زندگی کی مشکلوں، ناممکنات کو ممکن بنانے اور ان کا سامنا کرنے کے وہ عوامل جو نفسیاتی شواہد پہ مبنی ہوں ان کے ذریعے لوگوں کے اذہان کو چینلائذ کرنا ہی موٹیویشنل سپیکر کا کام ہے۔‘ 

لیکن دیکھا جائے تو ہم عموماً ذاتی تجربات کو لوگوں پہ تھوپنا شروع کر دیتے ہیں اور ہر کوئی خود کو ترغیب دینے کے لائق سمجھ بیٹھتا ہے۔

نامور موٹیویشنل سپیکر قاسم علی شاہ نے انڈپینڈںٹ اردو سے اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے اس رجحان کو بڑی باریکی سے بیان کیا۔

ان کے بقول ’جو بھی ترغیب دینے والا ہو اس کے پاس تین صلاحیتیں بہت بہترین ہونی چاہیں۔

’سب سے پہلے اس کی اپنی ابلاغ کی صلاحیت یا طرز گفتار بہت منجھا ہوا ہونا چاہیے۔ اسے بات کرنا آتی ہو۔ دوسرے کسی بھی شعبے میں اسے خود ایک مثال یا سکسیس سٹوری ہونا چاہیے۔

’اگر وہ خود ایک مثال ہے تو اسے سننے والوں کو قائل کرنا قدرے سہل ہو گا۔ تیسرے جس موضوع پہ بھی بات کر رہا یا رہی ہوں اس کے بارے میں مکمل تحقیق کر رکھی ہو، اگر یہ گن ہوں گے تو ہی وہ ایک کامیاب ترغیبی مبلغ کہلائے گا۔‘

یہ تو تھے وہ اجزائے ترکیبی جن سے مل کر ایک ترغیبی مبلغ بن پاتا ہے، لیکن کیا وجہ ہے آج کے دور میں ان کی ضرورت ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہو گئی ہے۔

آج کا نوجوان خصوصاً کس بات کا متلاشی ہے؟ سائیکو تھیراپسٹ امرت امجد کے مطابق ’آج کا نوجوان بلکہ ہر انسان کسی نہ کسی مقابلے کی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے، چاہے وہ زندگی کے حالات سے سمجھوتا ہو، امتحان کی تیاری ہو، کہیں سے ٹوٹے دل کے ساتھ واپس آیا ہو، اپنے آپ میں الجھا ہو، دوبارہ اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے کی جنگ جیتنا چاہتا ہو۔

’ان سبھی مراحل سے گزرتے ہوئے ایسے رول ماڈل کو نظر ضرور ڈھونڈتی ہے جو ہمت بندھا سکے، جو اس مخصوص صورت حال سے نمٹنے میں مددگار ہو۔

’جو اپنے تجربے، تحقیق اور کامیابی کی شمع روشن کر کے ہماری راہ میں بھی اجالا کر سکے۔ 

’اسی لیے آج کے سوشل میڈیا کے دور میں ہم ایسے افراد ڈھونڈتے ہیں جن کو سن کر، سمجھ کر اور ان سے سیکھ لے کر ہم خود آگے بڑھ سکیں، جینا سیکھیں، نظر انداز کرنا اور حالات کو تسلیم کرنا جان سکیں۔‘

آج انسان جس قسم کے مقابلے کی دنیا میں جی رہا ہے اور جس طرح کی نفسانفسی کو آئے دن زندگی میں نمک کی طرح شامل ہوتے دیکھ رہا ہے، ایسے میں موٹیویشنل سپیکر کی گفتگو اہم ہوتی جا رہی ہے۔

دماغ سے جڑے معاملات کو دنیا میں سمجھنے کے لیے چھ سے سات قسم کے ماہرین موجود ہیں، جن میں سب سے پہلے تو نیورولوجسٹ آتے ہیں اور درمیان میں نفسیاتی ماہرین، پھر ترغیبی مبلغ اور روحانی علاج کی باری آتی ہے۔

اب سب کچھ ایک کلک کی دوری پہ رہ گیا ہے۔ ایسے میں ’ٹیڈ ٹاک‘ کے ویڈیوز ہوں، نعمان علی خان کے اسلام پہ لیکچر ہوں یا قاسم علی شاہ کی دل کو لگتی گفتگو ہو، ہم سبھی میں اپنی امان تلاش کرتے ہیں اور خود کو منانے، سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اگر ایک وڈیو ہمیں لمبی سانس کھینچ کے اس کو لمبا باہر نکالنے پہ قائل کر لیتی ہے تو بھی ہم سکون میں آ جاتے ہیں۔

اس کے بر عکس کسی کامیاب مبلغ کا ترغیبی سیشن تو کئی ہفتوں کے لیے روحانی اور ذہنی صحت کو بحال رکھنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ 

لیکن ایک ترغیبی سیشن کی تیاری میں کن، کن عوامل کو ملحوظ رکھنا چاہیے، شونزے سبطین اپنے تجربے سے کہتی ہیں، ’ایک سیشن سے پہلے شواہد پہ مبنی اصولوں، خود افادیت اور خود ادراکی نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ترغیبی گفتگو کی تیاری کی جاتی ہے۔‘ 

یعنی آپ جس موضوع کو لے کر چلیں اس پہ آپ کا اپنا ادراک اور افادیت کا نظریہ شفاف ہو، اگر آپ خود کسی بات کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہوں گے تو دوسروں کو قائل کرنا محال ہو گا۔

آج کل کالج اور جامعات سے لے کر سکولوں تک سبھی جگہ ترغیبی مبلغین یا موٹیویشنل سپیکرز کو مدعو کرنےکا رواج چل نکلا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی ضرورت کیوں کر ہوتی ہے؟ واہ یونیورسٹی کے شعبہ انجینیئرنگ کے ڈین ڈاکٹر عدنان طارق کا اس بارے میں کہنا ہے ’ہمارے ارد گرد جس طرح کی اخلاقی اور سماجی پستی کا پھیلاؤ بڑھتا جا رہا ہے ایسے میں نوجوانوں اور طلبا کو ایک موٹیویشنل روڈ میپ فراہم کرنا بہت ضروری ہے اور یہ ترغیبی سیشنز تعلیمی اداروں میں اسی کوشش کی جانب ایک اہم قدم ہیں۔‘

یاد رہے کہ سماج جن عوامل سے مکمل ہوتا ہے اس میں سیاسی باز گشت بھی شامل ہوتی ہے اور جب کوئی بھی سماجی اجزائے ترکیبی پورا نہ ہو تو معاشرے ڈانواں ڈول ہونے لگتے ہیں۔

شاید ہمارے سماج میں بھی ایسی کمی بیشی واقع ہو رہی ہے۔ موٹیویشنل سپیکر یا ترغیبی مبلغ کے مزاج میں لچک بھی ضروری ہے۔ 

جینڈر ایکسپرٹ اور سماجی مبصر ریحانہ شیخ سمجھتی ہیں کہ ایسے مبلغ خواتین و حضرات جو سماج کے بڑے حصے تک رسائی رکھتے ہیں ان کے مزاج میں سماج کے ہر طبقے کے لیے ہم آہنگی لازمی جز ہے تاکہ وہ کسی ایک مخصوص نظریے کی تائید کرتے نہ لگیں اور صنفی تناظر میں خصوصاً متوازن نکتہ نظر اور مکتبہ فکر کے حامی سنائی دیں کیونکہ ان کے پیروکار ہزاروں کی تعداد میں ان کی تقلید پہ آمادہ ہو سکتے ہیں۔

یعنی موٹیویشنل سپیکر کے لیے بھی ایک گفتگو سے قبل کئی چیلینجز ضرور ہوتے ہیں ملحوظ رکھنے کے لیے۔ 

قاسم علی شاہ کے بقول ’لوگوں کو ایسی گفتگو سے امید ملتی ہے۔ اب مذہبی مبلغین موٹیویشنل سپیکرز کی نسبت پیچھے رہ گئے ہیں کیونکہ لوگ ایک مبلغ سے اپنے لیے جینے کی راہ تلاش کرنے میں مدد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ 

’ہمارے معاشرے میں ان ترغیبی مبلغین کا کوئی رجحان یا چلن نہیں بنا ہوا، ہمیں اپنا رستہ بھی نکالنا ہے اور اس سلسلے کو جاری بھی رکھنا ہے تو ہمارے پروفیشن کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔ 

’اب آہستہ آہستہ اس کو بھی پروفیشن کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ