ساس بہو نہیں، اب نئی نسل کی جنگ: ’پرورش‘ نے توڑ دی روایت

دادا دادی، والدین اور بچوں کے آپسی رشتوں کی کہانی جس کی پہلی قسط پر ہی تقریباً تین کروڑ ویوز آ گئے۔

پرورش ڈراما اپنے مختلف موضوع کی وجہ سے بےحد مقبولیت حاصل کر رہا ہے (اے آر وائی ڈیجیٹل)

اے آر وائی چینل سے نشر ہونے والے مڈل کلاس گھرانے کے پس منظر میں دکھائے جانے والے ٹیلی ویژن ڈرامے ’پرورش‘ کی مقبولیت کا اندازہ اسی بات لگا لیں کہ پہلی قسط پہ ہی اس کے 29 ملین سے اوپر ویوز آ گئے تھے۔

کنول صدیقی کے تحریر کردہ اور ہدایت کار میثم نقوی کی نگرانی میں فلمائے جانے والے اس ڈرامے میں دادی دادا، چچا چچی، ان کے بچے اور تایا تائی، ان کے بچے دکھائے گئے۔ سبھی کردار ایک سے بڑھ کے ایک اور تین نسلوں کی اس کہانی کو بنانے میں کون سا کردار لکھاری کرن صدیقی کے دل سے قریب تھا، کرن صدیقی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’میرے لیے سبھی کردار اہم تھے، کسی کو الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ سب کہانی میں تھے اور سبھی کی کہانی میں جگہ تھی، جس کے بغیر کہانی نہیں کہی جا سکتی۔‘

کہانی ایک نوجوان لڑکے گرد گھومتی ہے، ’ولی‘ کا کردار جو اپنے والدین کے ساتھ امریکہ سے پاکستان اپنی مرضی کے بغیر منتقل ہوا ہے کیونکہ ’امریکی ماحول اور سماج‘ پاکستانی نوجوانوں کو ان کی قدروں سے ’دور‘ کر رہے تھے۔ اور یہیں سے ملتی ہے نئی نسل ’جین زی‘ کی تصویر۔

کیا واقعی ’جین زی‘ کو اپنی قدروں سے جوڑے رکھنے کے لیے پاکستان کی ہوا کھلانا اہم ہے؟ اسی سوال کا جواب دیا کئی برس سے امریکی ریاست ہیوسٹن میں رہائش پذیر فرحانہ فاروقی نے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے گھر میں سبھی نے ڈراما ’پرورش‘ شوق سے دیکھا۔ ان کے بقول ’ہم نے گھر کا ماحول اپنے کلچر اور قدروں سے اتنا جوڑ کر قریب تر رکھا کہ بچے باہر جس ماحول میں بھی آتے جاتے انہیں اپنی قدروں کو ساتھ لے کر چلنے کی عادت ہو گئی۔ اور یہ عادت ہم والدین نے ڈالی۔ دو بیٹوں اور ایک بیٹی کی پرورش امریکی روش پہ نہیں بلکہ گھر کے اس ماحول میں کی جس میں ہم خود کراچی میں پل کر بڑے ہوئے تھے۔ یہاں بچوں کو اس طرح پالنا ایک چیلنج ضرور تھا لیکن ہم نے گھر میں ہمیشہ اپنی زبان بولی، اپنا لباس، اپنے کھانے اور اپنا پاکستانی طور طریقہ بخوبی چلایا۔ اتنے برس بعد کہ جب بچے یونیورسٹی گریجویٹ ہو گئے ہیں میں فخر کر سکتی ہوں کہ میرے بچے پاکستان سے جڑے ہیں اور کوئی ڈس کنیکٹ نہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے برعکس 1980 کے اواخر میں یورپ سے پاکستان منتقل ہونے والی مسز معین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’ہم کئی برس مختلف یورپی اور افریقی ممالک میں پرورش پا کر اپنے والدین کے ساتھ اس لیے پاکستان واپس لوٹے تھے کیونکہ نوجوان ہو رہے تھے اور والدین کو لگا کہ اب اپنے وطن واپسی کرنا چاہیے تاکہ بچے اس حساس عمر میں اپنے ماحول سے جڑ سکیں اور اپنی مٹی کی خوشبو کو پہچانیں۔

’ہمیں پاکستان آنا اس کے سبھی رنگوں کے ساتھ پسند آیا تھا۔ جب ہم سپین میں بھی تھے تو ہمارے گھر کا ماحول دیسی ہی تھا۔ لیکن سب چھوڑ کے پاکستانی ماحول میں رچ جانا ایک مرحلہ تھا، خاص کر اسکول کا ماحول جہاں استادوں کا رویہ ہمیں حیران اور پریشان کرتا۔ ہر وقت ٹیسٹ لیے جانے کی اک دہشت سی تھی۔ ہم والدین سے اکثر اس بارے میں بات بھی کیا کرتے تھے۔ میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان سکولوں میں طرز تعلیم آج بھی ایک سوال ہے۔‘

ڈرامے میں دادا کے کردار میں ہمیں کہنہ مشق میوزیشن اور اداکار ارشد محمود صاحب کو دیکھنے کا موقع ملا۔ ارشد صاحب سے انڈپینڈنٹ اردو نے جاننا چاہا کہ وہ ’جین زی،‘ اس کے مسائل اور پیشن کو کس طرح دیکھتے ہیں جنہیں اس ڈرامے کے کرداروں کے ذریعے ٹٹولنے کی کوشش کی گئی۔

ارشد صاحب کے بقول ’جین زی کے اس مفروضے سے گلوبل سوسائٹی کا وہی حال ہو گا جو فرقہ واریت سے مذہب کا ہوا ہے۔ جین زی ہو یا ملینیم کی نسل، یہ جو کچھ معاشرے میں اس وقت بکھرا ہوا ہے، یہ سکرپٹ اس صورت حال کے مقابلے میں ایک جہاد کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ جنریشنز کے چکر میں ڈالنا، رشتوں میں دراڑ ڈالنا ہے۔ دادا پوتے کا رشتہ صدیوں سے ایک قربت کا رشتہ رہا ہے، ہم یوں ان کو عمروں کی قید میں نہیں جکڑ سکتے۔‘

’پرورش‘ میں کرداروں کی کاسمیٹک ’گروومنگ‘ نہیں تھی بلکہ ہر چہرہ اپنے ہی گھر کا محسوس ہوا۔ اس کو نبھانے میں ہدایت کار میثم نقوی کی کتنی کاوش رہی؟ میثم نقوی اس بارے میں کہتے ہیں، ’میرے لیے سبھی کردار کٹھن تھے اور میں نے سبھی کے اذہان میں گھس کر ہر کردار کو تراشا۔ لیکن جین زی کے ساتھ کام کرنے میں آسانی رہی کیونکہ وہ اپنے سکرپٹ کو بخوبی سمجھ رہے تھے۔ اس سکرپٹ کی ڈیمانڈ میں تین نسلوں سے ڈیل کرنا شامل تھا اور تینوں ہی بڑا چیلنج تھیں۔ لیکن سب نے مل کر اپنے کرداروں میں رنگ بھرا۔‘

کیا ان کرداروں میں ہم خود کو ڈھونڈ پائے؟ لکھاری کرن صدیقی نے اس بارے میں بتایا کہ ’لکھاری کا بہت کچھ اس قلم سے زیادہ اس کے لاشعور کا حصہ ہوتا ہے۔ ولی کے کردار کے کئی عناصر میں خود جھلکتی ملی۔ ہر کردار میں کچھ نہ کچھ میرا تھا۔ اس میں جو کردار دادا دادی کے تھے ان میں مجھے میرے نانا نانی جھانکتے ملے، کہیں میرے والدین سے جڑا اسکرپٹ میں شامل تھا، اور کہیں میرے بہن بھائیوں کی چھاپ تھی لیکن مکمل کوئی رشتہ کاپی نہیں کیا گیا۔‘

ہدایت کار میثم نقوی بھی یہ مانتے ہیں کہ ’تینوں نسلوں کو شوٹ کرتے ہوئے کہیں نہ کہیں یہ احساس رہا کہ اس میں ہم خود موجود ہیں۔‘

میثم نقوی خود ایک والد بھی ہیں۔ کیا انہوں نے اس ڈرامے کی ہدایت کاری میں ایک والد کی آنکھ سے ڈرامے کو ڈائریکٹ کیا؟ کیونکہ موضوع ’پرورش‘ سے جڑا تھا۔ ان کے بقول ’میں نے ڈرامے کو پروفیشنل ہدایت کار کی نظر سے شوٹ کیا کیونکہ اگر میں ایک باپ کی نظر سے اس کو بناتا تو شاید میں جانبداری سے کام لیتا۔ اور میں جب شوٹ پر ہوتا ہوں تو صرف ایک ہدایت کار ہی ہوتا ہوں۔ ہاں اپنے تجربات سے کچھ نہ کچھ لے سکتے ہیں کیونکہ ہر انسان میں فقیر سے لے کے بادشاہ تک کی رینج موجود ہوتی ہے۔‘

پچھلے دنوں ایک اور سپر ہٹ ڈراما ’کبھی میں کبھی تم‘ بھی منظر عام پہ رہا۔ دیکھا جائے تو اس میں ’پرورش‘ سے منسلک میچیور عمر کے بچوں کے مسائل تھے۔ تو کیا سماجی میچیورٹی پہ ’پرورش‘ کے بعد مزید کام بھی ہو گا؟ تو میثم نقوی کا ماننا تھا کہ ’اولاد کسی بھی عمر میں ہو، پرورش اور ماں باپ کا کردار تو صدا سے چلتا آیا ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا۔‘

جبکہ کرن صدیقی کے بقول ’جینریشنل گیپ ایک حقیقت ہے اور اس ڈرامے میں ایک گھر میں تین نسلیں اکٹھی ان مسائل سے نمٹ رہی تھیں اور یہی نمٹنا دیکھنے والوں کی دلچسپی کا باعث تھا۔‘

عموماً ڈراموں کے کردار بچوں کو ذہن میں رکھ کر مرکزی کردار کی شکل میں کم ہی لکھے جاتے ہیں، لیکن ’پرورش‘ کا موضوع ہی ایسا تھا کہ جس کی رینج بچوں کے گرد رکھی گئی تھی اور خاص کر ’جین زی‘ کے حوالے سے بنے اس سکرپٹ میں نوجوانوں کے ذہنوں کو کریدنے کی ایک بھرپور کوشش تھی۔ تو کیا اب یہ مان لینا چاہیے کہ ہمارے ڈرامے کا کونٹینٹ ساس بہو کی رسہ کشی اور مہندی کی رسومات سے نکل چکا ہے؟

کرن صدیقی نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے اپنے خیالات کچھ یوں بانٹے: ’ساس بہو کا تناؤ بھرا رشتہ ایک حقیقت ہے اور اگر اس پر ڈرامے بن رہے ہیں تو اس لیے کہ رشتوں کا یہ تسلسل موجود ہے اور جاری رہے گا۔ رشتوں کا تسلسل بھی چلتا رہے گا اور ساس بہو کا تناؤ بھی۔ سو ڈرامے ہر موضوع پہ لکھے جانے چاہئیں، بس کردار مزے کے ہوں اور مزے سے نبھائے جائیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی