’میں منٹو نہیں ہوں‘ کا اختتام توقعات کے برخلاف نہیں ہے، لیکن بھاری بھرکم مکالموں سے لدے اس ڈرامے نے بصارت سے زیادہ سماعت کےلیے تسکین کا سامان کیے رکھا۔
’میں منٹو نہیں ہوں‘ ایک میگا پروجیکٹ ہے، اس کی پروڈکشن اور سنیماٹوگرافی عام پاکستانی ٹی وی ڈراموں کے معیار سے اعلیٰ ہے، یہ ڈراما دیکھ کر بڑے کینوس کا احساس ہوتا ہے۔
لیکن کہانی کی بنت میں، ڈرامے کے مصنف کی شخصیت کہانی پر مستقل حاوی رہی، جہاں کئی مناظر اس لیے دکھائے گئے کیوں مخصوص مکالمے ادا کرنے تھے۔ خلیل الرحمان قمر کے قلم سے لکھی یہ کہانی، جھول اور کمزوریوں کی وجہ سے بوجھل رہی، اور متعدد سوالات اختتام کے بعد بھی جواب طلب ہیں، جسے اب صرف مصنف کے قلم کا تکبر ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ ڈراما سوال نہیں الجھنیں چھوڑ کر ختم ہوا ہے۔
ڈرامے کا سب سے متنازع پہلو کالج کے پروفیسر (منٹو) اور ان کی طالبہ (محمل) کے درمیان رومانس ہے۔ یہ تعلق نہ صرف عمر کے فرق بلکہ پیشہ ورانہ اخلاقیات پر بھی سوال اٹھاتا ہے۔ اگرچہ اسے حقیقی محبت ثابت کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ کہانی تعلیمی اداروں میں استاد اور طالب علم کے رشتے کے تقدس پر سوالیہ نشان ضرور لگاتی ہے۔
اس ڈرامے میں خواتین کے کرداروں کو بظاہر مضبوط دکھانے کی کوشش کی گئی، لیکن اگر دیکھا جائے تو کئی خواتین کردار (بشمول محمل کی والدہ اور فرہاد کی بہن) کی زندگی کا مقصد صرف کسی مرد کے گرد ہی گھومتا رہا۔
جیسے ’مِس ماریہ چوہان‘ (صنم سعید) کا کردار صرف اور صرف منٹو کی دل جوئی، اور ان کو کھانا اور چائے فراہم کرنا تھا۔ مضبوط عورت کی تصویر کشی کے دعووں کے باوجود، اکثر خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کمزور یا غیر منطِقی دکھایا گیا۔
یہ ڈراما ملک کی تاریخ کے مہنگے ترین ڈراموں میں سے ایک تھا، ہمایوں سعید، سجل علی، صنم سعید، صائمہ نور، بابرعلی، صبا پرویز، اور آصف رضا میر جیسے نام اور پیشکش کا انداز اسے ایک دلچسپ اور زندگی سے بڑا بناکر پیش کر رہا تھا، لیکن کہانی کہیں بھی اس میگا پراجیکٹ کا جواز فرہم نہیں کرتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈرامے کا مرکزی کردار ’منٹو‘ سعادت حسن منٹو کی بےباک شخصیت کے برعکس ایک معصوم اور سادہ لوح شخص کے طور پر دکھایا گیا، جو اس نام کے ساتھ بالکل بھی انصاف نہیں کرتا۔
منٹو اپنی شاگرد محمل (سجل علی) سے آخر میں کھل کر اظہارِ محبت کے باوجود ایک بچے کی طرح کا معصومانہ ردعمل دکھاتے ہیں۔ چالیس کی دہائی کی عمر کے باوجود، ان کا رویہ عملی زندگی سے بےخبر، ’معصوم‘ اور سادہ لوح دکھایا گیا ہے۔
ایک کالج کے پروفیسر کا کردار، جس کے پاس دنیا کا تجربہ ہونا چاہیے، ہر دنیاوی چیز سے ناواقف، جذباتی اور غیر حقیقی انداز میں پیش آتا ہے، جب کہ وہ ایک خطرناک خاندانی دشمنی کے بیچ میں پھنس رہا ہوتا ہے۔ اس کردار کا عمل ان کے تجربے، تعلیم اور عمر کے سراسر خلاف ہے۔ یہ چیز کہانی میں غیر فطری پن پیدا کرتی ہے۔
پروفیسر منٹو کا نام منٹو کیوں تھا، ان کے والد کی کہانی کیا تھی، وہ کروڑوں روپے کہاں سے لائے تھے جو انہیں دے دیے، یہ سب سوالات تشنہ رہے۔ دیکھنے والے سوچتے رہے کہ اب کچھ بڑا ہو گا، منٹو کے اندر سے اس کی دوسری شخصیت باہر آئے گی، اور کچھ نہیں تو اس کے والد کا کوئی گینگ ہو گا جو اس پر قاتلانہ حملے کے بعد سامنے آئے گا مگر کچھ نہیں ہوا۔
آخر ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کا یہ نام کیوں رکھا گیا، کیا یہ عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش تھی جسے جدید اصطلاح میں ’کلک بیٹ‘ کہا جاتا ہے؟
آج کے جدید دور میں بھی ایک لڑکی کا رشتہ خاندانی دشمنی کو صلح میں بدلنے کے لیے طے کرنا انتہائی دقیانوسی انداز کا مظہر ہے۔
امرتسریوں کا خاندان باربار اتنا بےبس اور بن یامین کا خاندان اتنا حاوی کیوں رہا اگرچہ امن معاہدے کی خلاف ورزی متعدد مرتبہ بن یامین کے بیٹے فرہاد کی جانب سے ہوئی، اور اس کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
31 اقساط پر مشتمل اس سیریل کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ کہانی شاید فلمانے کے قابل ہی نہیں تھی، یا کم از کم اس کا اختتام کسی بڑے عمل یا واقعے پر ہوتا۔ آخری قسط سے پہلے صرف یہ سوال تھا کہ محمل کسے ملے گی، جو اتنے بڑے کینوس پر بہت چھوٹا محسوس ہوا۔
’میں منٹو نہیں ہوں‘ بلاشبہ ایک شاندار پروڈکشن تھی، مگر کہانی جس میں خاندانی دشمنی اور گہرے جذبات موجود تھے، اس پر متنازع رومانوی پلاٹ اور بھاری بھرکم مبالغہ آمیز مکالمات اس پر حاوی ہو گئے۔ یہ ڈراما ایک تفریحی سیریل سے ایک اخلاقی بحث کا مرکز بنا دیا، جس سے یہ بات پھر ثابت ہوتی ہے کہ خوبصورت پیشکش کے لیے کہانی کے بنیادی اصولوں کو قربان نہیں کرنا چاہیے۔