پروفیسر سر منٹو نہ بنیں

یہ ڈرامہ ایک جامعہ میں پڑھانے والے استاد اور ان کی طالبہ کے درمیان پنپتی ہوئی محبت کے بارے میں ہے۔

اے آر وائی ڈیجیٹل پر نشر کیے جانے والے پاکستانی ڈرامے ’میں منٹو نہیں ہوں‘ کے پرومو کور پر اداکارہ سجل علی اور ہمایوں سعید نظر آ رہے ہیں۔ یہ ڈرامہ سکس سگما پروڈکشنز کے تحت بنایا گیا ہے (اے آر وائی ڈجیٹل)

میں پچھلے کئی ہفتوں سے اپنی سوشل میڈیا فیڈ میں ’میں مںٹو نہیں ہوں‘ کے ویڈیو کلپس دیکھ رہی تھی۔

ان کلپس سے اتنا تو پتہ چل گیا تھا کہ یہ ڈرامہ ایک جامعہ میں پڑھانے والے استاد اور ان کی طالبہ کے درمیان پنپتی ہوئی محبت کے بارے میں ہے۔

تاہم، مجھے اپنی مصروفیت کی وجہ سے ڈرامہ دیکھنے کا وقت نہیں مل رہا تھا۔

پھر مجھے اپنی جامعہ میں اس ڈرامے کا ذکر سنائی دینے لگا۔ کلاس روم میں اس ڈرامے پر تنقید ہو رہی تھی اور کلاس روم کے باہر سر منٹو کی قسمت پر رشک کیا جا رہا تھا۔

میں نے بالاخر اختتام ہفتہ وقت نکالا اور اس ڈرامے کی اب تک نشر ہونے والی اقساط دیکھ ہی لیں۔

اس ڈرامے کی کہانی 22 سالہ محمل اور 42 سالہ سر منٹو کے گرد گھومتی ہے۔ محمل یونیورسٹی میں نئی آنے والی طالبہ ہے جبکہ سر منٹو وہاں غالباً لیکچرار ہیں۔

کچھ ہی عرصے میں دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں لیکن اپنے جذبات زبان پر لانے سے کتراتے ہیں۔

سر منٹو کی کولیگ مس ماریہ اور محمل کی پھپھو ہر وقت دونوں کو اپنے جذبات کو سمجھنے اور ایک دوسرے کو بتانے کی ترغیب دیتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

مس ماریہ کبھی سر منٹو کو محبت کے راز سکھاتی ہوئے تو کبھی محمل کو کریدتے ہوئے نظر آتی ہیں۔

دوسری طرف پھپھو کا بھی واحد کام محمل کو بار بار روک کر سر منٹو کی باتیں کرنا ہے۔

اس ڈرامے میں استاد اور طالب علم کے رشتے کو ایک رومانوی فینٹیسی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فیمنسٹ سکالرز کے مطابق ایسی کاوشیں طاقت پر مبنی تعلقات کو رومانوی رنگ دے کر اس معاشرے میں موجود فرسودہ سوچ کو تقویت دیتی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

استاد اور طالب علم کا رشتہ فطری طور پر غیر مساوی ہوتا ہے۔ استاد کے پاس اپنے رتبے کی وجہ سے زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ وہ طالب علم کو پڑھاتا ہے، اس کی کارکردگی جانچتا ہے اور اس کے تعلیمی مستقبل پر فیصلہ کن اثر ڈالتا ہے۔

اساتذہ اپنی اس طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر طالب علموں کا استحصال کر سکتے ہیں۔

دوسری طرف طالب علم اس تعلق کے دباؤ میں انکار کرنے کی حالت میں نہیں رہتے۔

اسی لیے ایسے تعلقات میں رضامندی کا تعین کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایسے ڈراموں کے اثر میں بہت سے طالب علم  استحصال کے واقعات کو نارمل تصور کر سکتے ہیں اور شدید جذباتی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو سکتے ہیں۔

پاکستانی جامعات میں ہراسانی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ کئی واقعات میں طالبات نے ایک ہی پروفیسر کے خلاف جنسی ہراسانی کی شکایات درج کروائی ہیں۔

ہم وقتی طور پر ایسے موضوعات پر بات کرتے ہیں اور جیسے ہی وہ واقعات کچھ روز پرانے ہوتے ہیں، ہم ان ہی ڈراموں کو دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ پھر جامعات میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان مبہم ہوتی حدود کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل پر بات کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

ہر جامعہ کا ایک ضابطہ اخلاق ہوتا ہے جس کی پیروی سب پر لازم ہوتی ہے۔

پروفیسروں کو بار بار یہ یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ وہ طالب علموں کے ساتھ حدود میں رہتے ہوئے کام کریں۔

ایسے ڈرامے پروفیسروں کو ان کے اعمال کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ وہ پہلے تنہائی میں اور پھر سب کے سامنے اپنی طاقت کے غلط استعمال کی توجیہات پیش کرتے ہیں۔

بہت سے مرد پروفیسر آپس میں طالبات کے بارے میں نازیبا گفتگو کرتے ہیں۔ ایسے اساتذہ کے بارے میں حسرت بھرے لہجے میں بات کی جاتی ہے جنہوں نے اپنے سے 20 سے 25 سال چھوٹی طالبات سے شادیاں کی ہوئی ہیں۔

ہمیں اس فرسودہ گفتگو، سوچ اور رویے کو رد کرنا ہے اور ایسی سوچ، رویے اور گفتگو کو عام کرنا ہے جو ان موضوعات پر سوال اٹھاتی ہے اور لوگوں کو اپنے سماجی رتبے کا خیال رکھتے ہوئے دوسروں سے میل جول کرنا سکھاتی ہے۔

یونیورسٹی کا ماحول تعلیم اور تحقیق کے لیے بنایا جاتا ہے۔ استاد اور طالب علم کے درمیان کچھ حدود قائم رہنی چاہیے تاکہ ان کا تعلق باہمی عزت پر قائم رہے اور ان میں سے کوئی بھی اپنے رتبے کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دوسرے کا استحصال نہ کر سکے۔

میڈیا اور اس کا مواد لوگوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اس پر دکھائے جانے والے مناظر اور بحث لوگوں کی سوچ بناتے اور تبدیل کرتے ہیں۔ ہمیں میڈیا پر ایسا مواد دکھانا چاہیے جو ہمارے معاشرتی مسائل کی عکاسی کرے اور ہمیں ان کا حل بتائے۔

ڈرامہ نگاروں کو ایسے مواد پر کام کرنا چاہیے اور اپنی سماجی ذمہ داری سمجھتے ہوئے ایسے موضوعات کو رد کرنا چاہیے جو معاشرے میں طاقت کے عدم توازن کو پروان چڑھا رہے ہوں۔

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ