پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر لاہور کی ایک نجی جامعہ کے پروفیسر کی ایک ویڈیو سامنے آئی، جس میں وہ ایک طالب علم کے بھائی سے فون پر بات کر رہے تھے۔ غالباً اس طالب علم کے پاس لیپ ٹاپ نہیں تھا اور پروفیسر اس بات پر کافی ناراض تھے۔
یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کال کس کے کہنے پر کی گئی تھی۔ آیا طالب علم نے خود بھائی کو فون کیا تھا یا پروفیسر نے کروایا تھا۔ فون کے دوسری طرف کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی لیکن پروفیسر کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ بات تلخ ہو چکی تھی۔
ایک طالب علم نے یہ منظر ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر ڈال دیا، جہاں حسبِ روایت کافی ہنگامہ مچا۔
اس واقعے کی مزید معلومات سامنے نہیں آ سکیں، اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ اس واقعے میں غلطی کس کی تھی، پروفیسر کی یا طالب علم کی۔ تاہم، یہ ویڈیو ہمارے اعلیٰ تعلیمی نظام میں استاد اور طالب علم کے مابین موجود مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے کافی تھی۔
اساتذہ کے پاس ادارہ جاتی طاقت ہوتی ہے جس کی بنیاد پر وہ اکثر اوقات طالب علموں کے ساتھ نا انصافی کر جاتے ہیں، جیسے ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر نمبر دینا، انہیں غیر ضروری طور پر تنگ کرنا، بار بار اپنے دفتر کے چکر لگوانا، ان کی بات نہ سننا، ان کے مسئلے نہ سمجھنا، ان کے کام کا کریڈٹ خود لینا یا ان سے اپنے ذاتی کام کروانا اور پھر اس میں کریڈٹ بھی نہ دینا۔
بہت سے اساتذہ طلبہ کو سوال کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے۔ ان کے لیکچر یک طرفہ خطاب ہوتے ہیں، جو طلبہ کو شدید بور ہونے کے باوجود نہ صرف سننے پڑتے ہیں بلکہ نوٹ بھی کرنے پڑتے ہیں۔
مشہور برازیلی ماہرِ تعلیم پالو فریرے اپنی کتاب ’پیڈاگوجی آف دا آپریسڈ‘ میں لکھتے ہیں کہ جب تعلیم یک طرفہ طاقت کا مظاہرہ بن جائے تو وہ طالب علم میں غلامانہ سوچ کو فروغ دیتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اساتذہ کو خود کو علم کا سرچشمہ سمجھنے کی بجائے مکالمے کے ذریعے طالب علموں کے ساتھ مل کر علم کا تبادلہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح طالب علم بہتر طور پر سیکھ پاتے ہیں اور معاشرے میں کوئی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
دوسری طرف طالب علم بھی بالکل معصوم نہیں ہوتے۔ وہ صورت حال سے مکمل فائدہ اٹھانا جانتے ہیں۔ ان کے پاس بہانوں کی ایک کتاب ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ بعض بہانے ایسے ہوتے ہیں، جن کے بارے میں پتہ ہوتے ہوئے کہ وہ جھوٹ ہیں استاد کچھ نہیں کر سکتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ ماہ قبل میں ایک کمرہ امتحان میں ڈیوٹی دے رہی تھی۔ جامعہ کی پالیسی کے مطابق امتحان شروع ہونے سے 10 منٹ قبل کمرہ امتحان کا دروازہ بند کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد کوئی طالب علم کمرہ امتحان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ دیر سے آنے والے طلبہ کو امتحان شروع ہونے کے 20 منٹ بعد داخلے کی اجازت ملتی ہے۔
میں نے مقررہ وقت پر دروازہ بند کر دیا۔ کچھ منٹ میں کمرے کے باہر کچھ طالب علم آ گئے۔ انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ وہ جمعہ پڑھنے گئے ہوئے تھے اور اس میں انہیں ایک منٹ کی دیر ہو گئی۔ میں نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ وہ ایک گروہ کی صورت میں انتظامیہ کے پاس چلے گئے۔ انہوں نے جمعے کو بنیاد بنا کر کہا کہ انہیں امتحان میں اسی وقت بیٹھنے دیا جائے۔ انتظامیہ کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑی اور مجھے ان طالب علموں کے لیے دروازہ کھولنا پڑا۔
پچھلی کچھ دہائیوں میں آنے والے ٹیکنالوجی کے طوفان نے بھی استاد اور طالب علم کے رشتے کو کمزور کرنے میں کافی بڑا کردار ادا کیا ہے۔ انٹرنیٹ پر بدنام ہونے سے بچنے کے لیے بہت سے اساتذہ کلاس روم میں تنقیدی گفتگو کرنے سے گھبراتے ہیں۔ کوئی بھی بات کسی کو بھی بری لگ سکتی ہے اور پھر وہ آپ کی ویڈیو بنا کر انٹرنیٹ پر ڈال سکتا ہے اور پھر وہاں موجود لوگ بغیر سیاق و سباق سمجھے ہنگامہ مچا کر آپ کی زندگی الٹ پلٹ کر سکتے ہیں۔
طالب علموں کو سمجھنا چاہیے کہ جامعہ میں ان کا بنیادی کام سیکھنا ہے۔ وہ چاہیں کلاس روم میں ہوں یا اس سے باہر انہیں اپنا وقت اور توانائی کچھ نہ کچھ سیکھنے پر صرف کرنا چاہیے ورنہ وقت کا کام تو گزرنا ہے وہ تو ہر صورت میں گزر جائے گا، نقصان صرف ان کا ہو گا۔ اگر وہ اس دوران اپنے اساتذہ کی بات نہیں مانیں گے، ان کا دیا ہوا کام نہیں کریں گے یا انہیں دیگر طلبہ کے آگے شرمندہ کرنے کی کوشش کریں گے تو نقصان انہی کا ہو گا۔
اساتذہ کو بھی سمجھنا چاہیے کہ ان کے پاس جو طاقت اور اختیار ہے، وہ ایک ذمہ داری بھی ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنے علم، تجربے اور حیثیت کو طلبہ کی رہنمائی اور مدد کے لیے استعمال کریں۔
تعلیم ایک یک طرفہ عمل نہیں ہے بلکہ شراکت پر مبنی رشتہ ہے۔ جب تک استاد اور طالب علم ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا نہیں سیکھیں گے تب تک سیکھنے کا عمل ادھورا ہی رہے گا۔ جامعات میں دونوں فریقین کو ایک دوسرے کے تجربات، سوالات اور سوچ کا احترام کرنا چاہیے اور آپسی ملاپ سے ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں نیا علم پیدا ہو، پرانے پر سوالات اٹھیں اور معاشرے کی بہتری کے لیے کام ہو۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔