پنجاب کے سرکاری سکولوں میں 18 لاکھ گھوسٹ طلبہ، 46 ہزار اضافی اساتذہ

محکمہ تعلیم پنجاب نے ڈیٹا انجینیئرز کی مدد سے بچوں کی جعلی انرولمنٹ پکڑی ہے، جس سے سرکاری سکولوں میں اضافی اساتذہ کی موجودگی کا بھی انکشاف ہوا۔

لاہور میں 24 مئی 2024 کو موسم گرما کی چھٹیاں شروع ہونے سے ایک دن قبل سرکاری سکول کی خاتون استاد بچیوں کو پڑھا رہی ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے 12 کروڑ آبادی والے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایک طرف کروڑ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں، وہیں دوسری جانب 18 لاکھ سے زیادہ گھوسٹ طلبہ کی سرکاری سکولوں میں انرولمنٹ کا انکشاف ہوا ہے۔

اسی طرح سرکاری سکولوں میں 46 ہزار اساتذہ اضافی ہونے پر صوبائی وزیر تعلیم نے نوٹس لے کر کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

محکمہ تعلیم پنجاب نے ڈیٹا انجینیئرز کی مدد سے بچوں کی جعلی انرولمنٹ پکڑ لی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈیٹا انجینیئرز کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پنجاب کے سرکاری سکولوں میں 18 لاکھ بچوں کی  گھوسٹ انرولمنٹ کی گئی ہے، یعنی ہر پانچ میں سے ایک بچہ حقیقت میں موجود ہی نہیں۔

دستاویزات کے مطابق سرکاری سکولوں میں طلبہ کی تعداد ایک کروڑ آٹھ لاکھ ظاہر کی گئی ہے، جب کہ درحقیقت ان تعلیمی اداروں میں محض 90 لاکھ طلبہ موجود ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے کے تمام اضلاع کے سرکاری سکولوں میں طلبہ کی جعلی رجسٹریشن کی گئی ہے۔

 فیصل آباد، لاہور، گجرانوالہ، رحیم یار خان، راولپنڈی اوربہاولپور میں گھوسٹ انرولمنٹ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

طلبہ کی تعداد پر نان سیلری بجٹ ماہانہ چار ارب (سالانہ 50 ارب) اضافی دیا گیا۔

صوبائی وزیرِ تعلیم رانا سکندر حیات نے اس معاملے پر ردعمل دیتے ہوئے میڈیا کو جاری بیان میں کہا کہ ’پنجاب میں 46 ہزار اساتذہ کے سرپلس ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ اساتذہ کے سرپلس ہونے کی بڑی وجہ جعلی انرولمنٹ تھی، جسے ختم کرتے ہوئے آئندہ طلبہ کے داخلوں اور رجسٹریشن کو نادرا سے لنک کر دیا گیا ہے۔ اس ریفارم سے سالانہ بنیادوں پر اربوں کی بچت ہو گی جبکہ اساتذہ کی کمی والا بڑا چیلنج بھی حل ہو جائے گا۔‘

گھوسٹ انرولمنٹ اور اضافی اساتذہ کا معاملہ 

رانا سکندر حیات کے مطابق: ’سرپلس اساتذہ کو 23 جولائی تک ریشنلائزیشن کے تحت اساتذہ کی کمی والے سکولوں میں تعینات کیا جائے گا، کیونکہ اساتذہ کے سرپلس ہونے کی وجہ سے صوبے کو سالانہ اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ صوبے کے 27 ہزار سے زیادہ سکولوں میں 46 ہزار سے زیادہ سرپلس اساتذہ موجود ہیں، جنہیں ریشنلائزیشن پالیسی کے تحت اساتذہ کی کمی والے 33 ہزار سکولوں میں تعینات کیا جائے گا۔‘

صوبائی وزیرِ تعلیم نے کہا کہ ’13 ہزار پرائمری سکولوں میں دو ہزار 948 اضافی اساتذہ موجود ہیں جبکہ 13 ہزار846 پرائمری سکولوں میں طلبہ اساتذہ تناسب کے مطابق 23 ہزار 648 اساتذہ درکار ہیں، جنہیں ریشنلائزیشن کے ذریعے شفلنگ کر کے ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

’پانچ ہزار 940 ایلیمنٹری سکولوں میں 12 ہزار533 سرپلس اساتذہ موجود ہیں جبکہ 15 ہزار 884 ایلیمنٹری سکولوں میں 18017 اساتذہ کی موجودہ گنجائش کو بھی ریشنلائزیشن پالیسی کے تحت پُر کیا جائے گا۔‘

رانا سکندر نے بتایا کہ جعلی انرولمنٹ کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی بھی کی جا رہی ہے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑ 11 لاکھ سے زیادہ بچے تعلیم سے محروم ہیں، جب کہ سندھ میں 70 لاکھ سے زیادہ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ خیبرپختونخوا میں یہ تعداد 36 لاکھ، بلوچستان میں 31 لاکھ اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں تقریباً 80 ہزار ہے۔ 

پاکستان میں سکول سے باہر بچوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ سکول جانے کی عمر کے 39 فیص بچے اس  وقت سکول سے باہر ہیں۔ بلوچستان میں سب سے زیادہ 65 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس