خیبرپختونخوا کی سرکاری جامعات میں مالی بحران کی وجہ کیا؟

اس گرانٹ میں دو ارب روپے سے زائد پشاور یونیورسٹی کو دیے جائیں گے، جسے جامعہ کی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے ’خوش آئند‘ قرار دیا ہے۔

 پشاور یونیورسٹی کی عمارت (پشاور یونیورسٹی فیس بک پیج)

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کی سرکاری جامعات میں مالی بحران کے خاتمے کے لیے پانچ ارب روپے سے زائد جاری کر دیے ہیں، جسے پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے ’خوش آئند‘ قرار دیا ہے۔

پشاور یونیورسٹی میں گذشتہ دنوں تنخواہوں کے معاملے پر اساتذہ و دیگر ملازمین کی جانب سے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیر اہتمام ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے دوران ملازمین نے تمام انتظامی امور سے بائیکاٹ اور وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے دھرنا دیا تھا اور چار بنیادی مطالبات حکومت کے سامنے رکھے تھے۔

پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کی جانب سے بدھ کو جاری بیان میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ تمام ملازمین کو جون کی 50 فیصد باقی ماندہ تنخواہ ادا کی جائے جبکہ جولائی کی مکمل تنخواہ ادا کی جائے۔

اسی طرح یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ ریٹائرڈ ملازمین کو جون اور جولائی کی بقایا پینشن ادا کی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ 2023 اور 2024 میں بھی پینشن کی مد میں بعض ریٹائرڈ ملازمین کی تنخواہیں رہتی ہیں، جنہیں فی الفور ادا کیا جائے۔

جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے دھمکی دی تھی کہ اگر حکومت کی جانب سے گرانٹ کا اعلان نہیں کیا گیا تو انتظامی امور کے ساتھ ساتھ کلاسز کا بھی بائیکاٹ کیا جائے گا۔

تاہم اب حکومت کی جانب سے فنڈز کے اجرا کے بعد آج پشاور یونیورسٹی نے اپنے بیان میں حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے ’خوش آئند‘ قرار دیا ہے۔

یونیورسٹی کے ترجمان محمد نعمان کے مطابق پانچ ارب روپے سے زائد کی گرانٹ میں دو ارب روپے سے زائد پشاور یونیورسٹی کو دی جائے گی۔

نعمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ گرانٹ پینشن بقایا جات کی مد میں منظور کی گئی ہے، جس سے یونیورسٹی کے پچھلے سات آٹھ سال کے بقایا جات ادا کیے جائیں گے۔

انہوں نے بتایا: ’یونیورسٹی کے گذشتہ آٹھ سالوں میں ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن ادا نہیں کی گئی، اس گرانٹ سے وہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘

بار بار مالی بحران کی وجہ کیا ہے؟

پشاور یونیورسٹی خیبر پختونخوا کی سب سے پرانی اور بڑی سرکاری یونیورسٹی ہے، جہاں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔

تاہم یونیورسٹی میں گذشتہ کچھ سالوں سے وقتاً فوقتاً مالی بحران پیش آتے رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ملازمین کو تنخواہوں کی بروقت ادائیگی یقینی نہیں بنائی جا سکی۔

ماضی میں بھی یونیورسٹی ملازمین کی جانب سے مظاہرے، دھرنے، قلم چھوڑ ہڑتال اور حتٰی کہ کلاسز کا بائیکاٹ بھی کیا جاتا رہا ہے۔

خیبرپختونخوا میں موجود تمام سرکاری جامعات خود مختار ادارے ہیں، تاہم حکومت کی جانب سے انہیں سالانہ گرانٹ دی جاتی ہے تاکہ مالی بحران سے بچایا جا سکے۔

یونیورسٹی کے ترجمان محمد نعمان سے جب پوچھا گیا کہ بار بار مالی بحران کیوں سامنے آتا ہے تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اس کی بنیادی وجہ صوبائی بجٹ میں یونیورسٹی کے اخراجات کو جگہ نہ دینا ہے، جس سے مالی بحران پیدا ہوتا ہے۔

 

دوسری جانب محمد نعمان کے مطابق یونیورسٹی میں طلبہ کے داخلے کی شرح میں کمی ہوئی ہے کیونکہ گذشتہ کچھ سالوں سے مختلف سرکاری کالجوں میں بی ایس (چار سالہ) ڈگری پروگرام شروع کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا: ’کالجوں میں بی ایس سیمسٹر کی فیس چھ سات ہزار روپے ہے جبکہ یونیورسٹی میں 40 سے 50 ہزار ہے تو طلبہ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کالج میں داخلہ لیں، جس سے یونیورسٹیوں میں طلبہ کی تعداد کم ہو رہی ہے۔‘

اس کے علاوہ محمد نعمان نے بتایا کہ 2018 کے بعد ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے ملنے والی گرانٹ میں سالانہ 10 فیصد اضافہ نہیں کیا جا رہا جبکہ خیبر پختونخوا میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی برانچ بھی موجود نہیں ہے۔

نعمان نے بتایا: ’ایک اہم وجہ یونیورسٹی کی جائیداد کا ہے جو پشاور اور صوبے کے مختلف علاقوں میں موجود ہے لیکن وہاں سے یونیورسٹی کو کرائے کی مد میں چند ہزار روپے ملتے ہیں اور جن لوگوں نے اسے لیز پر لیا ہے، وہ خود اس پر لاکھوں روپے کرائے وصول کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس