پشاور یونیورسٹی مالی بحران:  'ملازمین کو صرف بنیادی تنخواہیں دیں گے'

پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار کی جانب سے جاری شدہ ایک مراسلے میں لکھا گیا ہے کہ مالی بحران کا شکار ہونے کی وجہ سے یونیورسٹی اس قابل نہیں ہے کہ ملازمین کو الاؤنس سمیت تنخواہیں ادا کی جا سکیں۔

(پشاور یونیورسٹی ۔ فیس بک)

خیبر پختونخوا کی بڑی سرکاری  یونیورسٹی  نے مالی بحران کے بعد آئندہ ماہ سے تمام ملازمین  کو صرف بنیادی تنخوا ہ یعنی  بیسک سیلری دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

کسی بھی ملازم کو مزید کوئی بھی الاؤنس نہیں دیا جائےگا۔

پشاور یونیورسٹی کے رجسٹرار کی جانب سے ایک مراسلہ مختلف شعبہ جات کو جاری کیا گیا ہے( جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے ) جس میں لکھا گیا ہے کہ یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے اس لیے یونیورسٹی اس قابل نہیں ہے کہ ملازمین کو الاؤنس سمیت تنخواہیں ادا کریں۔

مراسلے میں لکھا گیا ہے 'جنوری میں صرف بنیادی یعنی بیسک پے  دی جائے گی۔'

اس فیصلے کے حوالے سے پشاور یونیورسٹی کے ترجمان محمد نعمان خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹی گزشتہ کافی عرصے سے مالی بحران کا شکار ہے اور اسی وجہ سے انتظامیہ کو یہ فیصلہ کرنا پڑا  کیونکہ حکومت کے پاس تنخواہوں کی مد میں فنڈ موجود نہیں ہے۔

نعمان نے بتایا  کہ ملازمین کی بنیادی تنخواہ کے علاوہ بقایا جات مستقبل میں ادا کیے جائیں گے جب یونیورسٹی کے پاس فنڈز موجود ہوں گے ۔

انھوں نے بتایا کہ  تنخواہوں میں کٹوتی کا فیصلہ اساتذہ سمیت تمام ملازمین پر لاگو ہوگا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'مالی بحران کی یہ حالت ہے کہ کئی مرتبہ ہائر ایجوکیشن کی جانب سےفراہم کردہ  انٹرنیٹ سروس کے  بقایا جات ادا نہ کرنے کی وجہ سے لائن منقطع بھی کر دی گئی۔'

مالی بحران کے وجوہات کے حوالے سے نعمان نے بتایا کہ تقریباً دس ماہ یونیورسٹی کرونا کی وجہ سے بند رہی جس دوران طلبہ کی  جانب سے فیس ریکوری نہیں ہو سکی،  امتحانات اور داخلے کی فیس بھی یونیورسٹی بند ہونے کی وجہ سے جمع نہیں کیے جا سکے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ یونیورسٹی کے اوپر پینشن کا بھی بہت زیادہ بوجھ ہے اور سالانہ ایک ارب روپے تک پینشن کی مد میں دیے جاتے ہیں جب کہ حکومت اور ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے پہلے جو گرانٹ تین چار یونیورسٹیوں کو دی جاتی تھی  وہی اب صوبے کے سارے جامعات پر تقسیم کی جاتی ہے۔

پشاور یونیورسٹی صوبے کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے جہاں پر لگ بھگ  15000طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جبکہ ملازمین کی تعداد 2200 سے اوپر ہے۔

یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے تنخواہوں میں کٹوتی کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے پشاور یونیورسٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر فضل ناصر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تنخواہوں کی ادائیگی ملازمین کا بنیادی حق ہے اور اس سے ملازمین دستبردار نہیں ہو سکتے۔

ان کا موقف تھا کہ تعلیم اور صحت کی فراہمی اور اس سے جڑی تمام خدمات کے عوض ادائیگی ریاست  کی اولین ذمہ داری ہے لیکن حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے یونیورسٹی مالی بحران کا شکار ہے۔

ڈاکٹر ناصر نے بتایا  کہ یونیورسٹی کے سالانہ اخراجات تقریباً چار ارب دس کروڑ ہیں جن میں ایک ارب دس کروڑ تک حکومت کی طرف سے ملتے ہیں جب کہ ایک ارب پچیس کروڑ  یونیورسٹی خود جنریٹ کرتی ہے۔ تاہم باقی رہنے والے ایک ارب پینسٹھ کروڑ کا خسارہ ہے اور اس حوالے سے بارہا حکومت کو بتایا گیا ہے لیکن ابھی تک حکومت یا ہائیر ایجوکیشن کی جانب سے اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔

ڈاکٹر ناصر نے بتایا 'یونیورسٹی کے پاس فیسوں کے علاوہ دیگر ایسے ذرائع  نہیں ہیں جن سے خسارے کو پورا کیا جا سکے۔ تو کیا یونیورسٹی  تعلیمی فیسوں میں اضافہ کرے؟ جو پہلے سے 50 ہزار روپے تک فی سمسٹر ہیں؟ ایک غریب کے لیے 50 ہزار فی سمسٹر جمع کرنا بھی برداشت سے باہر ہے۔'

ڈاکٹر فضل ناصر نے حکومتی رویے کے بارے میں بتایا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت سرکاری جامعات کو بھی نجی سیکٹر کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتے ہے کیونکہ جب جامعات خسارے میں ہوں تو فیسوں میں اضافے کے علاوہ ان کے پاس اور کیا ذریعہ ہو سکتا ہے؟

انھوں نے بتایا 'یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسے حالات دیکھ رہا ہوں کہ ملازمین کی تنخواہوں کے پیسے نہیں ہیں۔ مسئلہ یہ ہوا ہے کہ  ماضی میں صوبے میں چار پانچ جامعات تھیں اور حکومت  کی طرف سے ان کو فنڈ ملتے تھے لیکن اب جامعات کی تعداد 35 تک پہنچ گئی ہے لیکن وہی فنڈز اب 35 جامعات پر تقسیم کیے جاتے ہیں۔'

ڈاکٹر فضل ناصر نے کچھ حکومتی پالیسیوں کو بھی خسارے کا وجہ قرار دیا ۔ انھوں نے بتایا کہ ماضی کی حکومتوں میں پشاور یونیورسٹی کے پاس مخلتف الحاق شدہ ادارے تھے لیکن اب ان اداروں کو دیگر جامعات کے حوالے کیے گیا جب کہ پشاور یونیورسٹی پر پابندی لگائی گئی کہ پشاور سے باہر اضلاع کے طلبہ وہاں سے پرائیویٹ بی اے  نہیں کر سکیں گے۔ ان کی فیسوں کی مد میں نقصان مزید بڑھ گیا۔

انھوں نے بتایا 'پہلے بی اے بی ایس سی کے تقریباً ایک لاکھ  طلبہ پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیتے تھے جو  اب کم ہو کر 20 ہزار ہو گئے ہیں ۔ اسی طرح پرائیویٹ ایم  اے میں داخلہ لینے والوں کی تعداد 50 ہزار تک ہوتی تھی لیکن اب وہ کم ہو کر سات ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ خواتین سرکاری کالجز بھی پہلے پشاور یونیورسٹی سے الحاق شدہ تھے لیکن اب وہ صرف وومن یونیورسٹی کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں ۔'

فضل ناصر نے بتایا کہ تنخواہوں  میں کٹوتی کی وجہ سے کلاس فور ملازمین سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جن کی تنخواہ پندرہ سے بیس ہزار روپے ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے پہلے جنوری 2020 میں بھی پشاور یونیورسٹی کی جانب سے صوبائی حکومت کو ایک خط  کے ذریعے مالی بحرا ن سے آگاہ کیا گیا تھا  اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ یونیورسٹی کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ان کو گرانٹ دیا جائے۔

اس خط میں لکھا گیا تھا کہ 2006 سے 2019 تک یونیورسٹی کی گرانٹ میں 113 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ ملازمین کی تنخواہوں میں 270 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا ہے ۔ اسی طرح پینشن کی مد رقم کی ادائیگی میں سال 2006 کے مقابلے میں 2019 تک 979 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پشاور یونیورسٹی کو2006 میں حکومت کی جانب سے 72 کروڑ روپے دیے گئے تھے جب کہ 2019 میں یہ رقم ایک ارب 54 کروڑ سے زیادہ ہوگئی ہے، تاہم دوسری جانب ملازمین کی تنخواہیں ایک ارب 73 کروڑ روپے جبکہ پینشن کی رقم 2006 میں آٹھ کروڑ سے بڑھ کر 2019 میں 90 کروڑ روپے تک پہنچ گئی ہے ۔

جنوری 2020 میں یونیورسٹی انتظامیہ نے بتایا تھا کہ 2006 کے مقابلے میں 2019 میں تنخواہوں اور پینشن کی مد میں اضافہ دو ارب روپے سے زائد ہوا لیکن یونیورسٹی کی گرانٹ میں 82 کروڑ تک اضافہ ہوا جس کی وجہ سے یونیورسٹی معاشی بحران کا شکار ہے۔

صوبائی مشیر اطلاعات و اعلی تعلیم کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس مسئلے پر نوٹس لیا جا چکا ہے اور میں نے اس معاملے پر چیف سیکرٹری سے بھی بات کی ہے، کل وزیر اعلی کو یہ معاملہ پیش کیا جائے گا۔

بنگش نے بتایا کہ پشاور یونیورسٹی کو ایک ارب 40 کروڑ روپے خسارے کا سامنا ہے اور صوبے کی باقی جامعات بھی مالی مشکلات کا شکار ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہائیر ایجوکیشن کے چیئرمین کل پشاور آرہے ہیں۔ ہم ان سے بیٹھ کر اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالیں گے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس