پاکستان کے صوبے بلوچستان میں موبائل انٹرنیٹ سروس بدھ سے بند ہے اور صوبائی محکمہ داخلہ نے جمعرات کو اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فیصلہ سکیورٹی خدشات کی بنا پر کیا گیا۔
صوبائی محکمہ داخلہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’سکیورٹی وجوہات کی بنا پر سروس معطل کر دی گئی ہے۔‘
بلوچستان کے محکمہ داخلہ کے چھ اگست کو جاری ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق صوبے میں تھری اور فور جی سروسز 31 اگست تک بند رہیں گی۔
انٹرنیٹ سروس کی بندش پر شہریوں نے پریشانی کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان ایران تجارت سے منسلک حاجی آغا لالہ نے بتایا کہ ’بلوچستان میں پہلے ہی انٹرنیٹ سروس انتہائی سست روی کا شکار ہے جس ہمیں رقم آن لائن بھجنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا، اب انٹرنیٹ سروس کی بندش سے ان کے کاروباری مسائل مزید بڑھ سکتے ہیں۔‘
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے سابق سینیئر صدر آغا گل خلجی نے بتایا کہ بلوچستان کے اکثر تاجر جو ایران، چین اور افغانستان کے علاوہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، ان کے رابطے کا دارو مدار انٹرنیٹ سروس پر ہے۔ ’اس بندش سے بڑے پیمانے پر کاروبار متاثر ہوگا۔‘
انٹرنیٹ صارف نور شاہ خان نے بتایا کہ بلوچستان میں اگست میں گذشتہ کئی سالوں سے عسکریت پسندی کے واقعات میں اصافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی وجہ سے بڑے جانی و مالی نقصانات ہوئے ہیں۔
بقول نور شاہ ’امکان یہ ہی ہے کہ ممکنہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے سکیورٹی اداروں نے یہ اقدام اٹھایا ہو۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صوبائی حکومت نے یکم سے 15 اگست تک دفعہ 144 نافذ کر دی تھی، جس کے تحت صوبے میں موٹرسائیکل پر ڈبل سواری، اسلحے کی نمائش، پانچ یا اس سے زائد افراد کے اجتماع کے علاوہ عوامی مقامات پر چہرہ ڈھانپنے پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
بلوچستان ملک کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہےاور حالیہ برسوں میں عسکریت پسند تواتر سے اس صوبے کے مختلف اضلاع میں سکیورٹی فورسز، سرکاری تنصیبات اور عوامی مقامات پر حملے کر رہے ہیں۔
پانچ اور چھ اگست کو بھی بلوچستان کے ضلع مستونگ میں عسکریت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا جس میں پاکستانی فوج کے ایک بیان کے مطابق ایک میجر سمیت تین فوجی جان سے گئے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پر عزم ہیں۔‘