وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ آئندہ مالی سال میں 1000 ارب کے ترقیاتی پروگرام میں سے بلوچستان کا حصہ 250 ارب روپے ہو گا۔
کوئٹہ میں بلوچستان گرینڈ جرگے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صوبوں اور وفاقی حکومت کے لیے وفاق سے چلنے والا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) مجموعی طور پر ایک ٹریلین روپے کا ہو گا اور بلوچستان کو 250 ارب روپے ملیں گے، جو کل پی ایس ڈی پی کا 25 فیصد ہے۔‘
وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’میرے نزدیک یہ بھی ایک چھوٹی سی رقم لگتی ہے۔ تمام کوشش ہونا چاہیے کہ ترقیاتی پروگرام کے یہ فنڈز شفافیت کے ساتھ خرچ ہوں۔
’گوادر ہو، پسنی ہو، چمن ہو، قلعہ سیف اللہ ہو، کوئٹہ ہو، جھل مگسی ہو یا کوئی اور جگہ، ان وسائل کی ایک ایک پائی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے دیانتداری سے استعمال کی جانا چاہیے۔‘
وزیر اعظم نے صوبہ بلوچستان میں ماضی کے ترقیاتی منصوبوں پر بھی روشنی ڈالی، جیسے کسانوں کے لیے 70 ارب روپے کے سولر اقدام اور این 25 ہائی وے۔
گذشتہ ماہ وزیراعظم شہباز شریف نے اعلان کیا تھا کہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کا ریلیف صارفین تک پہنچانے کے بجائے حکومت بچتی رقم این 25 ہائی وے کی تعمیر نو اور بلوچستان میں کچھی کینال منصوبے کے فیز ٹو کی تکمیل کے لیے استعمال کرے گی۔
آج تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’2010 میں پنجاب نے بلوچستان کو این ایف سی میں 11 ارب روپے دیے اور جو آج تقریباً 155-160 ارب روپے ہوں گے، لیکن قومی یک جہتی کے لیے 1600 ارب روپے بھی زیادہ نہیں ہوں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کی وسعتیں زیادہ سرمایہ کاری کی متقاضی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’چھ اور سات مئی کو انڈیا نے پاکستان پر جو حملہ کیا تھا افواج پاکستان کی بہترین کارکردگی اور دلیری کے باعث دشمن کو وہ شکست کھانا پڑی، جو وہ (انڈیا) عمر بھر یاد رکھے گا
’اس حوالے سے میں بلوچستان کے بھائیوں اور بہنوں جبکہ دیگر صوبوں کے بھائیوں اور بہنوں کا بھی ممنون ہوں، جو افواج پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوئے۔‘
وزیراعظم نے مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’بلوچستان میں جن لوگوں کو دہشت گردوں نے ’گمراہ کیا‘ انہیں واپس لایا جائے۔
حالیہ مہینوں میں بلوچستان میں سکیورٹی کی صورت حال مزید خراب ہوئی ہے، کیونکہ عسکریت پسند، جو طویل عرصے سے ایک نچلی سطح کی شورش میں ملوث تھے، نے اپنے حملوں کی تعدد اور شدت کو بڑھا دیا ہے۔ خاص طور پر کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے زیادہ جانی نقصان پہنچانے اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کو براہ راست نشانہ بنانے کے لیے نئے حربے اپنائے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ ’دہشت گردوں کو [بلوچستان میں] عوام، حکومت یا مسلح افواج کو برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں ان لوگوں کو واپس لانے کی کوشش کرنا چاہیے، جنہیں [دہشت گردوں نے] گمراہ کیا تھا غلط راستے پر۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان کے دور حکومت میں بلوچستان میں معاشی یا سماجی ناانصافی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے مسائل کو اجتماعی طور پر مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ اگر کوئی خدشات ہیں تو بھائیوں کو مل بیٹھ کر ان مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ’خون کے پیاسے دہشت گرد جو پاکستان کی کامیابی اور فلاح و بہبود کے خلاف ہیں ان کو روکا جانا چاہیے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کیا خلا ہے جسے ہم آپ کی تجاویز سے پر کر سکتے ہیں۔‘