پاکستان، ترکی اور آذربائیجان کا سہ فریقی اجلاس لاچین شہر میں بدھ کو ہوا جس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ سہ فریقی اجلاس انتہائی تعمیری اور مفید رہا اور تینوں ممالک عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان، ترکی اور آذربائیجان یک جان اور تین قالب ہیں۔‘
آذربائیجان کے صدر الہام علییوف نے سہ فریقی سربراہی اجلاس سے خطاب میں پاکستان میں دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان بھی کیا۔
آذربائیجان میں جاری پاکستان، ترکی، آذربائیجان سہ فریقی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ تینوں ممالک مشترکہ تاریخ اور ثقافت میں بندھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 2020 میں ہونے والی جنگ میں ترکی اورپاکستان نے ہماری بھرپور مدد کی، پاکستان، ترکی اور آذربائیجان مشترکہ اہداف کے حصول کےلیے مل کر آگے بڑھ رہے ہیں۔
آذربائیجان کے صدر الہام علییوف نے اپنے خطاب میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔
A Summit with the participation of President Ilham Aliyev, President of the Republic of Türkiye Recep Tayyip Erdoğan, and Prime Minister of the Islamic Republic of Pakistan Muhammad Shehbaz Sharif, has commenced in Lachin.https://t.co/ULwvY34p7j pic.twitter.com/yJuOGH45ct
— Ilham Aliyev (@presidentaz) May 28, 2025
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’اس مشکل وقت میں اپنے برادر ممالک ترکی اور اور آذربائیجان کی حمایت کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ تینوں ممالک امن، دفاع اور اعلیٰ اقدار کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘
ان کے بقول: ’پاکستان، ترکی اور آذربائیجان سہہ فریقی تعاون کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے لیے پر عزم ہیں اور تینوں ممالک گہرے اور مشترکہ ثقافتی، مذہبی اور تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔‘
وزیر اعظم نے کہا کہ کشمیر کاراباغ اور قبرص پر ایک دوسرے کی حمایت تعلقات کی مضبوطی کا اظہار ہے جب کہ کردستان ورکنگ پارٹی کا تحیل ہونا ترک صدر کی سیاسی بصیرت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آذربائیجان نے لڑ کر آزادی حاصل کرکے دنیا کی آزاد قوموں میں اپنا نام بنایا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آذربائیجان کے شہر لاچین میں سہ فریقی سربراہی اجلاس، جس میں ترک صدر رجب طیب اردوان اور میزبان صدر الہام علییوف شریک تھے، شہباز شریف نے کہا کہ ’پاکستان نے پہلگام حملے کے بعد غیر جانبدار تحقیقات کی پیش کش کی لیکن انڈیا نے اسے مسترد کرتے ہوئے بغیر کسی ثبوت کے پاکستان پر جنگ مسلط کر دی جس کا ہم نے اپنے دفاع میں بھرپور دفاع کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ انڈیا نے اس واقعے کو بہانہ بنا کر پاکستان کے حصے کو بند کرنے کی دھمکی دے کر زندگی دینے والے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیا، لیکن انڈیا کبھی ایسا نہیں کر پائے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان انڈیا کے ساتھ کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہے۔
ان کے بقول: ’اگر انڈیا دہشت گردی پر بات کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں لیکن دنیا کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان خود دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے جہاں 90 ہزار پاکستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور ہم نے اس سے 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان برداشت کیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم کل بھی امن چاہتے تھے، آج بھی چاہتے ہیں اور کل بھی چاہیں گے۔‘
ترک صدر رجب طیب اردوغان نے اس موقع پر کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی مستقل امن میں تبدیل ہو اور انقرہ اس حوالے سے ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہم مشکلات کے مقابلے میں اپنی یکجہتی اور مشترکہ اقدام کی صلاحیت کے فروغ کو انتخاب نہیں بلکہ ایک ضرورت سمجھتے ہیں جب کہ ہمارے خطے میں ہونے والی پیش رفتیں" تینوں ممالک کے درمیان یکجہتی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔
صدر اردوغان نے کہا کہ انقرہ ’ترکی-آذربائیجان-پاکستان ترقیاتی شاہراہ‘ یعنی مڈل کوریڈور اور نارتھ ساوتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور جیسے منصوبوں میں مشترکہ طور پر تعاون کرے گا۔
انہوں نے کہا: ’آذربائیجان کی جانب سے کاراباغ کی آزادی کے بعد اب ہم امید کرتے ہیں کہ یہ خطہ استحکام، خوشحالی اور ترقی کا مرکز بن جائے گا۔‘
غزہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے اردوغان نے کہا: ’ہم بے گناہ فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کے لیے پرعزم ہیں جنہیں قتل عام کا نشانہ بنایا گیا اور ہم خطے کے امن کو بگاڑنے کی کوششوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہیں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ترکی دنیا سے مطالبہ کرتا ہے کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی کے قیام کے لیے اسرائیل پر دباؤ میں اضافہ کیا جائے اور فوری انسانی امداد کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے۔