بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مسائل حل کیے بغیر بڑھنا ناممکن

حکومت کی کارکردگی کو اگر مثالی نہیں تو بہتر ضرور کہا جا سکتا ہے لیکن بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی وہ مسائل ہیں جن کو حل کیے بغیر آگے بڑھنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا۔

19 مئی 2025 کو صوبہ بلوچستان کے قلعہ عبداللہ میں ہونے والے بم دھماکے کے ایک دن بعد تباہ شدہ گاڑی موجود ہے (عبدالباسط/ اے ایف پی)

’پاکستانی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے۔‘ ’مہنگائی تاریخی، شرحِ سود بھی تاریخی حدوں پر، تحریکِ انصاف سڑکوں پر، عدلیہ کے فیصلے بینچ بنتے ہی طے۔‘

ایسی اخباری سرخیوں سمیت ایک وقت تھا جب وی لاگرز نے آدھے کور کمانڈرز ایک طرف اور آدھے دوسری طرف ہونے سے لے کر رینک اینڈ فائل میں دراڑ اور بغاوت تک کی خبریں پھیلا دی تھیں۔

پھر نو مئی کا واقعہ ہوا اور اس کے بعد کی صورت حال جو کہ بے قابو ہوتی نظر آئی۔ ان موضوعات پر ’گذشتہ سے پیوستہ‘ کے مصداق یہاں کئی سابق تحریریں کاپی پیسٹ ہو سکتے ہیں۔

آج کے کالم میں کچھ سابقہ خبروں اور حقائق پر بات کی تمہید باندھنا لازمی اس لیے تھی کہ یاد دہانی ہو سکے کہ پاکستان سیاسی اور معاشی طور پر کہاں کھڑا تھا اور آج کہاں کھڑا ہے۔ ظاہر ہے پاکستان ملائشیا اور سنگاپور تو نہیں بن گیا، لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ معیشت اب استحکام کی جانب بڑھ رہی ہے، سیاسی عدم استحکام کم ہوا ہے (جس کی وجوہات پر کالم کے آخر میں بات کریں گے)۔

’مائٹی انڈیا‘ کا تاثر ماند پڑ گیا، آئی ایم ایف کے قرضوں پر چلنے والے معاشی ملک نے دنیا کی چوتھی بڑی معیشت کو عسکری میدان میں شکست دے کر عالمی دنیا اور ڈیفنس تھنک ٹینکس کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کیا۔ سفارتی طور پر شاید ہی پاکستان اس سے پہلے وہاں کھڑا ہوا ہو، جہاں آج کھڑا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات ہوں یا چین کی پاکستان کی کھلی حمایت، یہ دونوں چیزیں پاکستان کی بہترین سفارت کاری کا مظہر ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جو بیک وقت امریکہ اور چین سے کامیاب حکمتِ عملی کے تحت بہتر تعلقات رکھتا ہے۔

یقینی طور پر گورننس اور کئی اہم معاملات میں کوتاہیاں اور کمزوریاں موجود ہیں، لیکن اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی کو اگر مثالی نہیں تو بہتر ضرور کہا جا سکتا ہے۔

آج بھی ایک اور شوگر سکینڈل کی صدائیں آ رہی ہیں، بے روزگاری ہے، غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کی تعداد بڑھی ہے، بلوچستان اور پختونخوا دہشت گردی کی آگ میں جل رہے ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ حالات بہتر ہوئے ہیں اور مزید بہتری کی جانب گامزن ہیں۔

78 سالوں کی بیڈ گورننس ایک سال میں ختم ہونے سے تو رہی، اور نہ ہی معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر جانے والی کرپشن چٹکی بجاتے ختم ہو سکتی ہے۔ یہاں مزدور اور ریڑھی والے سے لے کر سرمایہ دار اور بڑے بڑے بابوؤں تک کرپشن کو ’حلال‘ سمجھا جاتا ہے، بس ہر کسی کا اپنا طریقۂ واردات ہے، جس کے خاتمے کے لیے طویل مدتی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

لیکن دو مسئلے ایسے ہیں جن پر حکومت ابھی تک اس طرح سے کارکردرگی دکھانے میں ناکام رہی ہے جس طرح سے کر سکتی تھی: بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی دہشت گردی۔ دونوں مسائل کی نوعیت بالکل مختلف ہے۔

بلوچستان کی بات کریں تو ایک طرف ریاست سے لڑنے والے دہشت گرد ہیں، تو دوسری جانب سیاست کے ذریعے ریاست سے اپنے حقوق کی جدوجہد کرنے والے لوگ۔ آپ ایک ہی چھڑی سے دونوں کو ہانک نہیں سکتے۔ جو لوگ شناختی کارڈ چیک کر کے معصوم اور مظلوم مزدوروں کو مار ڈالیں، وہ کسی رحم کے قابل نہیں۔

لیکن وہ لوگ جو ابھی بھی ریاست اور پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، انہیں انگیج کرنا ہو گا۔

حکومت نے سنجیدہ کوشش کا اعلان بھی کیا، ڈاکٹر مالک جیسے جید بلوچ سیاست دانوں نے اس کا خیر مقدم بھی کیا، لیکن وہ اعلان سرد خانے کی نذر ہو گیا۔ کئی بار جب اعلیٰ حکومتی وزرا سے اس بارے میں استفسار کیا گیا تو جواب ملا: پتہ نہیں معاملہ کیوں سست پڑ گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلوچستان کے مسئلے کا واحد حل ’پیپل سینٹرک‘ ہونا چاہیے، اور حل ہے بھی یہی۔ اور یہ بات پھر دہرانا چاہوں گا کہ ریاست کے خلاف لڑنے والوں کے لیے کوئی معافی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن جو پُرامن سیاسی کارکن اور رہنما جن کا گلہ ہے کہ انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چرایا گیا، ان سے بات کرنے میں کیا حرج ہے؟

بلکہ سب سے بہتر حل یہ ہے کہ بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات (لیکن شفاف) کروا کر اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جائیں۔ تاکہ وہ نوجوان جو یہ سمجھتا ہے کہ ریاست نے اسے محروم رکھا ہے، اس کے پاس جب اختیار اور وسائل آئیں گے تو ہی اس کا ذہن بدل پائے گا۔ ورنہ تو 78 برسوں میں کھربوں روپے ڈکار جانے والے سردار، نواب (سیاست دان) اسی طرح کرتے رہیں گے۔

اب آتے ہیں خیبر پختونخوا کی طرف، جہاں دہشت گردی تو گذشتہ چار دہائیوں سے ہزاروں لوگوں کو لقمۂ اجل بنا چکی ہے، لیکن بیڈ گورننس اور امن و امان کی مخدوش صورت حال کے مکس نے عوام کا جینا حرام کر رکھا ہے۔

ایک علیحدہ کالم میں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے کہ کیسے دس بارہ اضلاع میں پولیس کی عمل داری نہ ہونے کے برابر ہے اور دہشت گرد سہ پہر سے ہی اپنی چیک پوسٹیں بنا لیتے ہیں۔ خود وزیرِ اعلیٰ اور گورنر اپنے آبائی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان نہیں جا سکتے۔

بیڈ گورننس اور کرپشن پر بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے، لیکن لا اینڈ آرڈر جو کہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے، اگر وہ بے قابو ہو جائے تو کیا ریاست اور وفاقی حکومت سوتی رہے گی؟

یہ دونوں مسائل، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی، وہ مسائل ہیں جن کو حل کیے بغیر، اور فوری حل تجویز کیے بغیر، آگے بڑھنا ناممکن نہیں تو بہت ہی مشکل ضرور ہو گا۔

کرپٹو کرنسی کے ساتھ ساتھ ان دونوں صوبوں میں پائیدار امن کی ایک مربوط حکمت عملی پر بھی اگر کام کیا جائے تو اس میں کوئی عار نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف میں ڈیلیور کرنے کی صلاحیت ہے، وہ ماضی میں یہ ثابت کر چکے ہیں۔

بلوچستان اور پختونخوا میں امن کی ایک مربوط حکمت عملی پر نہ صرف وہ کام کر سکتے ہیں بلکہ جب ریاست اور حکومت ساتھ ہوں تو ڈیلیور بھی کر سکتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر