سندھ تہذیب کی تباہی، ہمارے لیے خطرے کا الارم کیوں ہے؟

موسمیاتی تبدیلیاں ایک بار پھر سندھ تہذیب کے لیے خطرے کا الارم بجا چکی ہیں۔

9 فروری 2017 کو لی گئی اس تصویر میں لوگ یونیسکو عالمی ثقافتی ورثے کی آرکئیالوجیکل سائٹ موہنجو داڑو کا معائنہ کر رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

سندھ کی تہذیب کیوں فنا ہوئی؟ اس پر بات کرنے سے پہلے ایک نظر آج کے تہران پر ڈالتے ہیں: 550  قبل مسیح کے اردگرد کا زمانہ ہے۔ ایران کےعظیم بادشاہ دارا اوّل کا سکہ چل رہا ہے۔ اس دوران اچانک بارشیں رک جاتی ہیں، خشک سالی کا دورانیہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ جانور مرنے لگ جاتے ہیں۔ جہاں کبھی باغات اور کھیت ہوا کرتے تھے وہ اجاڑ بیابان معلوم ہوتے ہیں۔

شاہی خزانے میں سونے کی اشرفیاں تو ہیں مگر گوداموں میں اناج نہیں ہے۔ لوگ اپنے بچے کھچے خاندان کو لے کر دانا پانی کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں۔

ایسے میں دارا کو خطرہ ہے کہ بیرونی حملہ اس صورت حال سے فائدہ اٹھا کر ایران کو تاراج کر سکتے ہیں۔ اس خدشے کے پیشِ نظر وہ خدا کے سامنے جھک جاتا ہے دعا کرتا ہے کہ خدا بارشیں دے تاکہ ایران میں قحط سالی کا خاتمہ ہو۔

یہ منظر آج بھی ایران کی چٹانوں پر منقش ہے جہاں دارا خدا کے حضور بارش کے لیے دعا گو ہے۔

آج کم و بیش اڑھائی ہزار سال بعد ایران کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت تہران ایک بار پھر اسی صورت حال کا شکار ہے۔ تہران کے آبی ذخائر میں اب چند دن کا پانی باقی ہے۔

ڈیڑھ کروڑ آبادی والے اس شہر کو مستقبل قریب میں کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی بحث شروع ہو چکی ہے جس میں اب ایرانی صدر مسعود پزشکیان بھی شامل ہو چکے ہیں۔

آج سے ساڑھے تین سے ساڑھے چار ہزار سال پہلے وادیِ سندھ کی تہذیب بھی اسی طرح اپنے جوبن پر تھی۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے شہروں میں زندگی اپنے تمام تر رنگوں کے ساتھ موجزن تھی۔

ہزاروں سال پہلے ان شہروں کو بسانے میں جس منصوبہ بندی کا ثبوت ملتا ہے وہ ماہرین کے لیے آج بھی حیران کن ہے۔ ایک سیدھ میں بنی ہوئی گلیاں، نکاسی آب و ہوا کا موثر نظام، آبادی کی درجہ بندی اور شہروں کی سکیورٹی کا نظام، یہ سب عوامل وادیِ سندھ کی تہذیب کو دنیا کی اوّلین شہری آبادیوں میں ممتاز مقام عطا کرتے ہیں۔ لیکن پھر یہ شہر صفحۂ ہستی سے ایسے مٹے کہ آج بھی ماہرین حیران ہیں کہ اتنے محفوظ شہری ڈھانچے کے ہوتے ہوئے ان شہروں کے ساتھ کیا انہونی ہوئی تھی؟

وادیِ سندھ کے ان شہروں کا تہران سے فاصلہ تقریباً اڑھائی ہزار کلومیٹر کا ہے اور درمیان میں بھی تقریباً اڑھائی ہزار سال کا فرق ہے۔ جو کچھ آج کے تہران میں ہو رہا ہے وہی کبھی یہاں کے موہنجو داڑو اور ہڑپہ میں ہوا ہو گا۔

وادی سندھ کی تہذیب بھی قحط کا نشانہ بنی: ایک حالیہ سائنسی تحقیق جو دنیا کے مؤقر جریدے نیچر میں شائع ہوئی ہے اس نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے وادیِ سندھ کی تہذیب کے تباہ ہونے کی وجہ کیا تھی۔

موسمیاتی تغیر و تبدل کا ریکارڈ رکھنا زیادہ پرانی بات نہیں ہے اس لیے ماہرین نے وادیِ سندھ میں موسمیاتی شواہد کو عارضی موسمیاتی ماڈلز سے نتھی کر کے قدیم آبیاتی تجزیوں کو دیکھا جس سے معلوم ہوا کہ یہاں پر شدید اور دیرپا خشک سالی دہائیوں اور صدیوں تک جاری  رہی جس نے 4400 سے 3400 سال پہلے وادیِ سندھ کو اس حد تک متاثر کیا کہ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں میں پانی غیر معمولی حد تک کم ہو گیا۔

بارشوں کی کمی کی وجہ سے خشک سالی کے پے در پے ادوار آئے۔ موہنجو داڑو اور ہڑپہ جیسے بڑے شہر ویران ہو گئے، لوگ چھوٹے چھوٹے گروہوں اور قبیلوں کی شکل میں پانی کی تلاش میں نکل گئے۔

ماہرین خیال کرتے ہیں کہ قدیم دور میں گرمیوں اور سردیوں کی بارشوں کا نظام ایک ہی ہوتا تھا لیکن پھر ابتدائی تا آخری ہولوسین دور میں یہ الگ ہو گیا جس کی وجہ سورج کے درجۂ حرارت میں تبدیلیاں بیان کی جاتی ہیں۔

ماہرین نے اس سلسلے میں جھیلوں کے ریکارڈ، غاروں میں موجود معدنی تہیں، قدیم نباتاتی شواہد، سمندری ریکارڈ اور ارضیاتی ذخائر کا بغور جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ تقریباً 4350 سے 3450 سالوں کے عرصے میں وقتاً فوقتاً طویل خشک سالی کے کئی ادوار آئے جس نے وادیِ سندھ میں پانی کا شدید بحران پیدا کر دیا۔

سائنس دانوں کے مطابق اس عرصے میں کم از کم  خشک سالی کے چار ایسے ادوار آئے جن میں سے ہر ایک 85 سال یا اس سے زیادہ مدت پر محیط تھا۔ ایک دور تو 110 سال سے بھی زیادہ عرصہ جاری رہا۔

 شروع میں بارشیں 10 سے 20 فیصد کم ہوئیں پھر آہستہ آہستہ بارشیں بالکل رک گئیں۔ لوگوں نے اس موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن جب حالات قابو سے باہر ہو گئے تو وہ پانی کی تلاش میں دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے جس سے اپنے وقت کی عظیم شہری تہذیب ختم ہو کر نسبتاً چھوٹی چھوٹی بستیوں میں ڈھل گئی۔

وادیِ سندھ کی تہذیب کی تباہی میں موسمیاتی تبدیلیوں کے کردار کا نظریہ نیا بالکل نہیں ہے۔ اس کو سب سے پہلے ڈاکٹر جوناتھن مارک کینوئر نے 20ویں صدی کی آخری دہائی میں پیش کیا تھا۔ وہ یونیورسٹی آف وسکانسن میں آرکیالوجی کے پروفیسر ہیں اور ہڑپہ ڈاٹ کام کے بانی ہیں۔

ان کی کتاب Ancient Cities of the Indus Valley  جسے آکسفورڈ نے 1998 میں شائع کیا تھا۔

اس میں انہوں نے بتایا کہ موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی تباہی میں کسی بیرونی حملہ آور یا فوج کا کوئی کردار نہیں ہے نہ ہی یہ تہذیب اچانک ختم ہوئی بلکہ یہ صدیوں پر محیط موسمیاتی تبدیلیوں پر مبنی تدریجی عمل تھا۔ جس کی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلیوں کا عمل دخل ہے۔ وادیِ سندھ کے تین بڑے دریا گھاگھر، ہاکڑا اور سرسوتی خشک ہو گئے جس سے شہری مراکز کی تباہی شروع  ہوئی۔ متاثرین مشرقی پنجاب، گنگا جمنا کے میدانوں، گجرات اور راجستھان میں منتقل ہو گئے۔ ویدک کلچر کسی تباہ شدہ تہذیب کی جگہ پروان چڑھنے والا ایسا کلچر نہیں تھا جو کہیں باہر سے آیا تھا بلکہ یہ ایک ارتقائی عمل کے تحت وجود میں آیا تھا۔

کیا ایک بار پھر وادیِ سندھ کی تہذیب کو خطرہ ہے؟

اس تمام تر بحث میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جیسے ساڑھے تین سے ساڑھے چار ہزار سال پہلے سندھ تہذیب موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہوئی کیا ویسے ہی ڈیڑھ ہزار سال پہلے گندھارا کی تہذیب بھی موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہوئی تھی؟ کیونکہ یہاں بھی تباہی کا ذمہ دار بیرونی حملہ آور سفید ہنوں کو قرار دیا جاتا ہے۔

مؤقر امریکی جریدے کرسچیئن سائنس مانیٹر نے اپنی 2012 کی اشاعت میں بڑی تفصیل کے ساتھ  اس سوال کا جئزہ لیا ہے۔How climate change destroyed one of the world’s Largest civilizations    نامی مضمون کے مصنف Charles Choi لکھتے ہیں کہ ’چار ہزار سال پہلے دنیا کی سب سے بڑی تہذیب دریائے سندھ سے بحیرۂ عرب تک دس لاکھ مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی تھی جہاں اس وقت دنیا کی دس فیصد آبادی رہتی تھی۔ 5,200 سال پہلے یہ تہذیب وجود میں آئی اور 3,900 سال سے 3,000 ہزار سال کے درمیان یہ بتدریج ختم ہوتی گئی، جس کی بڑی وجہ سورج کی سطح کے درجۂ حرارت میں ہونے والی تبدیلیاں تھیں جن سے براہ راست مون سون کا پیٹرن متاثر ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ تبدیلیاں ہر دو سے تین ہزار سال کے عرصے میں نمودار ہوتی ہیں۔ مون سون کے اس بدلتے پیٹرن نے ہی وادیِ سندھ کی تہذیب کے نقوش مٹائے ہیں۔‘

جدید دور کے کئی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ وادیِ سندھ کی تہذیب کی تباہی کے پیچھے یہی عنصر کارفرما ہے۔ اگر گندھارا تہذیب کی تباہی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھا جائے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گذشتہ دس پندرہ بیس سال سے آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس بھی کیا جا سکتا ہے کہ ہم شاید پھر اسی سائیکل میں داخل ہو چکے ہیں جس سائیکل سے وادی سندھ کے شہر موہنجو داڑو اور ہڑپہ گزرے تھے۔

پاکستان میں پچھلی ایک صدی کے دوران درجۂ حرارت میں ڈیڑھ سیلسیئس کا فرق آیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں  13,032 گلیشیئرز ہیں تیزی سے پگھل رہے ہیں یہ گلیشیئرز دریائے سندھ میں 60 سے 70 فیصد پانی کی وجہ بنتے ہیں۔

گذشتہ کئی سالوں سے گرمیوں کا دورانیہ زیادہ اور سردیوں کا کم رہ گیا ہے۔ 19 مئی 2025 کو قومی اسمبلی میں ایک سوال کے جواب میں موسمیاتی تبدیلی کے وفاقی وزیر ڈاکٹر مصدق ملک نے بتایا تھا کہ گلیشیئرز پگھلنے سے 3,044 جھلیں بن چکی ہیں جن میں سے 33 کسی بھی وقت پھٹ سکتی ہیں جس سے ان جھیلوں سے نیچے بسنے والے 71 لاکھ لوگ خطرے میں ہیں۔ اس سے پہلے ایسی 75 جھلیں پھٹ چکی ہیں۔

ڈاکٹر فہد سعید جو کہ ویدر اینڈ کلائمیٹ سروسز کے چیف ایگزیکٹو ہیں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ درجۂ حرارت بڑھنے کا براہ راست اثر گلیشیئرز پر ہو رہا ہے۔

’گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار یہی رہتی ہے تو اس صدی کے اختتام تک ہمارے 50 فیصد گلیشیئرز پگھل جائیں گے لیکن اگر ہمارا درجۂ حرارت 2.2 فیصد تک بڑھ جاتا ہے تو پھر اس دوران ہمارے 80 فیصد گلیشیئرز پگھل سکتے ہیں جس کا اثر ہماری فوڈ سکیورٹی پر پڑے گا جو ہماری نیشنل سکیورٹی کے ساتھ منسلک ہے۔‘

ہمارے ہمسائے میں سب سے بڑے شہر تہران کے ساتھ آج وہی کچھ ہو رہا ہے جو ماضی میں ہمارے موہنجو داڑو اور ہڑپہ کے ساتھ ہو چکا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں ایک بار پھر سندھ تہذیب کے لیے خطرے کا الارم بجا چکی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات