سندھ میں پانی کی 55 فیصد کمی، بعض علاقوں میں پینے کا پانی بھی ناپید

انچارچ کنٹرول روم سکھر بیراج عبدالعزیز سومرو کے مطابق ’مئی کے تیسرے ہفتے میں سندھ کے تینوں بیراجوں پر پانی کی طلب ایک لاکھ پانچ ہزار کیوسک ہوتی ہے، جب کہ اس وقت سندھ کو گڈو بیراج پر 57 ہزار 200 کیوسک پانی مل رہا ہے۔

سندھ میں بدین کے نواحی گاؤں میں دیہاتی خواتین گڑھے میں جمع پانی پینے کی غرض سے اکٹھا کر رہی ہیں (امر گرُڑو / انڈپینڈنٹ اردو)

محکمہ آبپاشی سندھ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سندھ کے تینوں بیراجوں پر سرکاری طور پر مختص پانی کی کمی 54.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جس کے بعد تینوں کینالوں سے نکلنے والی کئی نہروں کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے اور صوبے کو پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ 

انچارچ کنٹرول روم سکھر بیراج عبدالعزیز سومرو کے مطابق ’مئی کے تیسرے ہفتے میں سندھ کے تینوں بیراجوں پر پانی کی طلب ایک لاکھ پانچ ہزار کیوسک ہوتی ہے، جب کہ اس وقت سندھ کو گڈو بیراج پر 57 ہزار 200 کیوسک پانی مل رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں سندھ کو 54.5 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے۔‘ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالعزیز سومرو نے کہا: ’اس وقت کوٹری بیراج پر 62 فیصد، سکھر بیراج پر 17 فیصد اور گڈو بیراج پر 62 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے، جب کہ ان بیراجوں سے نکلنے والی کئی نہریں مکمل طور پر بند ہو گئی ہیں۔ 

’پانی کی کمی کے باعث گڈو بیراج کے دائیں جانب سے نکلنے والی ڈزرٹ پٹ فیڈر اور بائیں سے نکلنے والی بیگاری سندھ فیڈر کو بند کردیا گیا ہے، جب کہ گھوٹکی فیڈر کو صرف 1600 کیوسک پینے کا پانی دیا جا رہا ہے۔ 

’سکھر بیراج سے نکلنے والی کھیرتھر کینال اور دادو کینال پانی کی کمی کے باعث بند ہیں، جب کہ رائیس کینال میں صرف 3500 کیوسک پانی دیا جا رہا ہے۔ یہی صورت حال کوٹری بیراج پر ہے۔ اگر یہ ہی صورت حال رہی تو سندھ کو آنے والے دنوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہو گا۔‘

محکمہ موسمیات کے مطابق سندھ میں رواں سیزن کے دوران معمول سے 52 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں اور آنے والے مہینوں میں بھی زیادہ بارشوں کا امکان نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں زیریں سندھ کے حیدرآباد، کراچی اور میرپورخاص کے اضلاع میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو سکتی ہے۔ 

ساحلی اضلاع ٹھٹھہ، سجاول اور بدین کے ساحلی شہریوں اور بستیوں میں ’قحط سالی‘ جیسی صورت حال ہے۔ 

ضلع بدین کی تحصیل ماتلی کے گاؤں کپری موری کے رہائشی، نجی سکول چالنے والے سماجی رہنما مکیش میگھواڑ کے مطابق پانی کی شدید قلت کے باعث بدین ضلع میں مرچی، کپاس سمیت مختلف فصلوں کی بوائی نہیں ہو سکی اور پانی کی کمی کے باعث بڑی تعداد میں مویشی مرنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفگتو کرتے ہوئے مکیش میگھواڑ نے کہا: ’بدین ضلع کی ماتلی، بدین، شادی لارج سمیت کئی شہروں میں پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے۔ لوگ کئی کلومیٹر کا سفر کر کے پینے کا پانی لاتے ہیں۔ 

’کئی مہینوں سے جاری پانی کی قلت کے باعث دیگر اضلاع کی طرح بدین میں وارا بندی شروع کی ہے، جس کے تحت کچھ وقت پہلے تک ہر 15 روز کے بعد نہروں میں صرف پینے کا پانی دیا جاتا تھا۔ مگر اب یہ وقت بڑھا کر 21 دن کر دیا گیا ہے۔ اس لیے اب نہروں کے آخری حصوں پر واقع علاقوں کو پینے کا پانی بھی نہیں ملتا۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ’سب سے زیادہ خراب صورت حال گولاڑچی تحصیل میں ہے، جہاں جیسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ اگر جلد پانی مہیا نہ کیا گیا تو انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔‘

ضلع بدین کے احمد راجو کے قریب چک نمبر چار کے رہائشی محمد فاضل ملاح نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے علاقے میں نہری پانی کئی مہینوں سے مکمل طور بند ہے اور اس کے ساتھ زیر زمین پانی بھی میسر نہیں۔ 

محمد فاضل ملاح کے مطابق: ’زیریں سندھ کے ساحلی اضلاع پر مشتعل علاقے کو سندھی زبان میں لاڑ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں دریائے سندھ پورے ملک سے ہوتا ہوا سمندر میں گرتا ہے۔ مگر جب گڈو بیراج اور سکھر بیراج پر بھی پانی نہیں کوٹڑی بیراج سے نیچے کئی مہینوں سے پانی نہیں آیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہمارے علاقے کا زیر زمین پانی دریائے سندھ یا اس سے نکلنے والی نہروں سے سیم کر میٹھا ہوتا تھا۔ مگر اب دریا سندھ اور نہریں بڑے عرصے سے خشک ہونے کے باعث زیر زمین پانی کھارا ہو گیا ہے۔ 

’پانی حاصل کرنے کے لیے ہم گڑھے کھودتے ہیں۔ خواتین ان گڑھوں کے کنارے سارا دن پانی رسنے کا انتظار کرتی ہیں اور پانی آتا ہے تو انتہائی کھارا ہوتا ہے۔ مگر مجبوری میں وہ پانی بھی پینا پڑتا ہے۔‘

ٹھٹھہ ضلع میں پانی کی شدید کمی کے باعث صورتحال خراب ہے۔ ماہی گیروں کی نمائندہ جماعت پاکستان فشر فوک فورم کے رہنما اور ٹھٹھ ضلع کے گاؤں پیر جھالو کے رہائشی گلاب شاہ کے مطابق ٹھٹھہ ضلع کے ساحلی علاقوں میں پینے کا پانی بھی میسر نہیں ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو سے گفگتو میں گلاب شاہ نے کہا: ’ہمارے گاؤں میں نہری پانی اُڈیرو برانچ سے آتا ہے جو کوٹڑی بیراج سے نکلنے والے کلری بگھار یا کے بی فیڈر سے نکلتا ہے۔ مگر اس نہر کو گذشتہ چار مہینوں سے پینے کے لیے پانی بھی نہیں دیا گیا۔ اس لیے زیر زمین پانی بھی کھارا ہوگیا ہے۔ 

’میں اپنے خاندان کے چار کلومیٹر دور سے پینے کا پانی لاتا ہوں۔ پانی کی شدید قلت کے باعث ہمارے علاقے میں مویشی مرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ٹھٹھہ ضلع کی گھوڑا باری، ساکرو، کیٹی بندر، شاہ بندر سمیت مختلف علاقوں میں پینے کا پانی بھی میسر نہیں۔‘

دوسری جانب عمرکوٹ ضلع کے ڈپیٹی کمشنر نوید لاڑک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’پانی کی کمی کے باعث کئی فصلوں کی وقت پر بوائی نہیں ہو سکی تھی۔

’مگر اب سنا ہے کہ سکھر بیراج سے نکلنے والے نارا کینال میں پانی چھوڑا جا رہا ہے جس سے امید کر سکتے ہیں کہ صورت حال میں کچھ بہتری آئے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان