بدین میں شہری کا قتل، ’را‘ سے تعلق رکھنے والے چھ ملزم گرفتار: پاکستانی حکام

سی ٹی ڈی کے مطابق رواں برس مئی میں ضلع بدین کی تحصیل ماتلی میں ایک 45 سالہ شخص کے قتل کے الزام میں انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ سے روابط رکھنے والے چھ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

کراچی میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ہفتے کو بتایا ہے کہ رواں برس مئی میں ضلع بدین کی تحصیل ماتلی میں ایک 45 سالہ شخص کے قتل کے الزام میں انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ سے روابط رکھنے والے چھ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ماتلی میں رواں برس 18 مئی کو موٹرسائیکل پر سوار تین نقاب پوش ملزمان نے عبدالرحمٰن عرف رضا اللہ نظامانی کو اس وقت فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا، جب وہ حجام کی دکان سے بال کٹوا کر باہر نکل رہے تھے۔

عبدالرحمٰن عرف رضا اللہ نظامانی پاکستان مسلم لیگ کے رہنماؤں میں سے ایک تھے، جن کی موت کے بعد انڈین میڈیا نے دعویٰ کیا کہ ان کا تعلق کالعدم لشکرِ طیبہ سے تھا۔

سی ٹی ڈی کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اے آئی جی) آزاد خان نے ہفتے کو اس قتل اور گرفتاریوں کے حوالے سے دیگر افسران کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ محکمہ انسداد دہشت گردی اور حساس اداروں نے کارروائی میں ’را‘ کا ایک خفیہ نیٹ ورک بے نقاب کیا ہے۔

حالیہ عرصے میں حکام نے ملک کے مختلف حصوں سے انڈین خفیہ ایجنسی کے مبینہ ایجنٹس کی گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے۔

اے آئی جی آزاد خان نےعبدالرحمٰن عرف رضا اللہ نظامانی کے قتل کے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’18 مئی 2025 کو ضلع بدین کے شہر ماتلی میں ایک بے گناہ شہری کا قتل ہوا، جو علاقے میں فلاحی کاموں کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔‘

اے آئی جی نے بتایا کہ ’واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تین ملزمان ہیں اور اسی طرح عینی گواہان نے بھی ان کو دیکھا۔ واقعے کے فوری بعد انڈین میڈیا نے اس ٹارگٹ کلنگ پر بے انتہا خوشی کا اظہار کیا اور اس پر پراپیگنڈہ کرنا شروع کیا کہ انہوں نے پاکستان میں انڈین دشمن کو ٹارگٹ کیا ہے۔‘

مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آزاد خان نے بتایا کہ ’سی ٹی ڈی اور وفاقی حساس ادارے نے بہت زیادہ محنت کی اور ٹیکنیکل معلومات کی بنیاد پر آٹھ جولائی کو چار ملزمان عمیر اصغر، سجاد، عبید اور شکیل کو گرفتار کیا۔ تفتیش کے دوران ان کے ’را‘ سے روابط ثابت ہوئے اور یہ ثابت ہوا کہ اس ساری کارروائی کا ماسٹر مائنڈ ایک خلیجی ریاست میں رہائش پذیر انڈین خفیہ ایجنسی کا ایجنٹ اور ہینڈلر سنجے سنجیو کمار عرف فوجی تھا۔‘

اے آئی جی آزاد خان کے مطابق: ’سنجے نے ایک خطیر رقم کے عوض شیخو پورہ کے رہائشی سلمان کو ہائر کیا، جو 12 مئی کو کراچی ایئرپورٹ کے ذریعے آیا اور پھر حیدرآباد روانہ ہوا۔ وہاں وہ ایک ہوٹل میں رہائش پذیر ہوا اور چار ملزمان جو اس کے ساتھی تھے، وہ مرید کے اور شیخوپورہ سے آئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ملزمان نے پانچ دن تک ماتلی میں جا کر اس واردات کی ریکی کی اور واردات کے دن شکیل، عبید اور سجاد تینوں ماتلی روانہ ہوئے، انہوں نے وہاں پر ٹارگٹ کلنگ کی اور عمیر اور سلمان حیدرآباد میں اس ہوٹل میں ہی رہے اور وہاں سے وہ اس واردات کو ہینڈل کرتے رہے۔ بیرون ملک سے سنجے ان کے ساتھ اس دوران مسلسل رابطے میں رہا۔ واردات کے بعد سلمان کراچی ایئرپورٹ کے ذریعے پہلے خلیجی ملک گیا، پھر وہاں سے وہ نیپال فرار ہو گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’تفتیش کے دوران سی ٹی ڈی نے یہ بھی پتہ چلایا کہ ’را‘ نے اس واردات کے لیے بہت خطیر رقم خرچ کی اور بینکوں اور مختلف ذرائع سے انہوں نے یہ پیسے پھیجے۔‘

اے آئی جی کے مطابق یہ سارے شواہد سامنے آنے کے بعد ٹیرارزم فنانسنگ کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس واقعے میں ملوث ارسلان کو 17 اگست کو اور طلحہ عمیر کو 22 اگست کو ہم نے گرفتار کیا۔ ملزمان سے واردات میں استعمال ہونے والے دونوں پستول نائن ایم ایم اور تھرٹی بور برآمد ہوئے، ون ٹو فائیو موٹرسائیکل بھی برآمد ہوئے اور ان کے موبائل فونز بھی برآمد ہوئے، جو اس وقت انہوں نے استعمال کیے۔‘

اے آئی جی کے مطابق: ’اس دوران ہمیں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ را نے ایک علیحدگی پسند تنظیم کو بھی سہولت کاری کے لیے استعمال کیا اور اس حوالے سے مزید تفتیش جاری ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ اس طرح کے ماورائے عدالت قتل، عالمی قوانین میں سٹیٹ سپانسر ٹیرارزم کے کھاتے میں آتے ہیں اور انڈیا کی خفیہ ایجنسی کی پہلی واردات نہیں تھی۔ انہوں نے پہلے بھی مختلف ممالک میں اس طرح کی کارروائیاں کی ہیں اور اس میں ان کا ملوث ہونا ثابت ہوا ہے۔‘

اے آئی جی آزاد خان نے بتایا کہ انہوں نے اس کیس میں جو بھی شواہد اکٹھے کیے ہیں اور جو بھی روابط ثابت ہوئے ہیں، یہ معاملہ مناسب فورمز سے اٹھایا جائے گا۔

پاکستان نے اس سے قبل جنوری 2024 میں بھی کہا تھا کہ اس کی سرزمین پر قتل کے دو واقعات میں انڈین ایجنٹس کے ملوث ہونے کے ’مستند شواہد‘ موجود ہیں۔

اس وقت کے سیکرٹری خارجہ سائرس قاضی نے ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ ’پاکستانی شہری شاہد لطیف اور محمد ریاض کو انڈیا نے قتل کروایا۔‘

پاکستان میں انڈین ایجنٹس کی گرفتاری

حالیہ عرصے میں حکام نے ملک کے مختلف حصوں سے انڈین خفیہ ایجنسی کے مبینہ ایجنٹس پکڑے جانے کا دعویٰ کیا ہے۔

رواں برس جون میں سندھ پولیس نے بتایا تھا کہ انڈین خفیہ ایجنسی ’را‘ سے منسلک چار خطرناک ملزمان کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔

سی ٹی ڈی پنجاب نے بھی مئی میں ’را‘ کے تین ایجنٹس کو گرفتار کیا تھا، جن کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ وہ عید کے موقعے پر اہم مقامات کو نشانہ بنانا چاہتے تھے اور ان کے پاس سے  بھاری مقدار میں اسلحہ، دھماکہ خیز مواد، ڈیٹونیٹرز اور نقشے برآمد ہوئے تھے۔

ترجمان سی ٹی ڈی نے یہ بھی بتایا تھا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ مشتبہ افراد وٹس ایپ کے ذریعے انڈیا کو حساس مقامات کے نقشے ارسال کرتے رہے۔

پاکستانی حکام نے تین مارچ 2016 کو ’را‘ کے جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادو کو بلوچستان سے اس وقت گرفتار کیا تھا، جب وہ اپنے مقامی مددگاروں کے ساتھ ایک خفیہ دورے پر تھے۔

کلبھوشن نے گرفتاری کے بعد پاکستانی حکام کو بتایا تھا کہ وہ انڈین نیوی کے افسر تھے جو انٹیلی جنس کا کام سرانجام دیتے تھے۔

اس غرض سے کلبھوشن نے ایران کے علاقے چاہ بہار میں حسین مبارک پٹیل کے نام سے ایک بزنس بھی شروع کیا تھا تاکہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔

اپریل 2017 میں کلبھوشن کو پاکستان کی فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی، جس کے خلاف انڈیا نے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، تاہم بعد میں پاکستان نے کلبھوشن کی ملاقات اس کی والدہ سے بھی کروائی تھی۔

حالیہ چند مہینوں میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور 6 سے 10 مئی کے درمیان دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بھی ہوئی، جس کے بعد امریکہ اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کی کوششوں نے دونوں ملکوں میں جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان