صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے جمعے کو پکڑے جانے والے انڈین خفیہ ادارے ’را‘ کے تین ایجنٹس کو پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ پر سکیورٹی اداروں کے حوالے کر دیا ہے۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کے ایک اہلکار نے ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ملزمان جن میں اعظم، امجد اور منظور شامل ہیں کا جسمانی ریمانڈ لیا گیا ہے ’تاکہ ان سے پوچھ گچھ کر کے ان کے مزید ساتھیوں تک پہنچا جاسکے۔‘
محکمہ انسداد دہشت گردی، پنجاب کے ترجمان کے جمعے کو جاری کردہ بیان کے مطابق: ’ملزمان انڈین ایجنسی را کے لیے کام کرتے ہیں اور متعدد بار غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے سری نگر اور راجستھان میں را کے ایجنٹوں سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔‘
را کے ان مبینہ ایجنٹس کی گرفتاری عید سے ایک روز قبل عمل میں آئی تھی۔
سی ٹی ڈی پنجاب نے خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے انڈیا کی خفیہ ایجنسی را سے تعلق رکھنے والے تین خطرناک مبینہ ایجنٹس کو جھنگ روڈ، پٹھان کالونی سے گرفتار کیا تھا۔
محکمہ انسداد دہشت گردی پنجاب کے مطابق ’ملزمان عید کے موقع پر لاہور، بہاولپور، بہاول نگر اور پاکپتن میں اہم مقامات کو نشانہ بنانا چاہتے تھے اور ان کے پاس سے بھاری مقدار میں اسلحہ، دھماکہ خیز مواد، ڈیٹونیٹرز اور نقشے برآمد ہوئے تھے۔‘
تین گرفتار مبینہ ایجنٹس کا تعلق جنوبی پنجاب کے علاقوں سے تھا ان میں اعظم نامی شخص کا تعلق منچن آباد، امجد کا پاکپتن اور منظور کا تعلق بہاول نگر سے ہے۔
ترجمان سی ٹی ڈی نے یہ بھی بتایا کہ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ مشتبہ افراد واٹس ایپ کے ذریعے انڈیا کو حساس مقامات کے نقشے ارسال کرتے رہے۔
سی ٹی ڈی فیصل آباد نے مقدمہ درج کر کے مزید تفتیش شروع کر دی تھی۔
کلبھوشن یادھو
را کے جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادھو کی تین مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتاری کو 9 سال مکمل چکے ہیں۔
کمانڈرکلبھوشن کو پاکستانی حکام کے مطابق تین مارچ 2016 میں بلوچستان سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے مقامی مددگاروں کے ساتھ ایک خفیہ دورے پر تھے۔
کلبھوشن نے گرفتاری کے بعد پاکستان کو بتایا کہ وہ انڈین نیوی کے افسر تھے جو انٹیلیجنس کا کام سرانجام دیتے تھے۔
اس غرض سے کلبھوشن نے ایران کے علاقے چاہ بہار میں حسین مبارک پٹیل کے نام سے ایک بزنس بھی شروع کیا تھا تاکہ وہ اپنا کام جاری رکھ سکیں۔
اپریل 2017 میں کلبھوشن کو پاکستان کی فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی جس کے خلاف انڈیا نے عالمی عدالت انصاف کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔ تاہم بعد میں پاکستان نے کلبھوشن کی ملاقات اس کی والدہ سے بھی کرائی تھی۔
کلبھوشن یادھو کیس، کب کیا ہوا:
- 3 مارچ:انڈین شہری کلبھوشن جادھو کو پاکستان ایران سرحدی علاقے سے گرفتار کیا گیا۔
- 24 مارچ: پاکستانی فوج نے دعویٰ کیا کہ کلبھوشن انڈین بحریہ کے افسر اور را کے ایجنٹ ہیں اور انہیں پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقے سراوان سے گرفتار کیا گیا۔
- 26 مارچ: حکومت پاکستان نے انڈین سفیر کو طلب کر کے انڈین جاسوس کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخلے اور کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے پر باضابطہ احتجاج کیا۔
- 29 مارچ: کلبھوشن جادھو کے مبینہ اعترافی بیان کی ویڈیو جاری کی گئی۔
- اپریل: کلبھوشن کے خلاف بلوچستان کی حکومت نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کروا دی۔
- 10 اپریل: کلبھوشن جادھو کو فوجی عدالت نے ملک میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنا دی۔
- 10 مئی: انڈیا نے کلبھوشن جادھو کی پھانسی کی سزا پر عمل رکوانے کے لیے عالمی عدالت انصاف میں درخواست دائر کر دی۔
- 15 مئی: عالمی عدالت میں انڈین درخواست کی سماعت ہوئی۔ دونوں جانب کا مؤقف سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
- 18 مئی: عالمی عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت دی کہ مقدمے کا حتمی فیصلہ آنے تک کلبھوشن جادھو کو پھانسی نہ دی جائے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حالیہ چند مہینوں میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس کشیدگی کی بنیادی وجہ مختلف مسائل ہیں، جن میں سرحدی جھڑپیں، کشمیر کا تنازع اور دونوں ممالک کے درمیان بڑھتا ہوا سیاسی تناؤ شامل ہے۔
انڈیا نے پاکستان پر 22 اپریل 2025 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام مہلگام میں دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام لگایا جسے پاکستان نے مسترد کرتے ہوئے واقعے کی غیر جانبدار تفتیش کا مطالبہ کیا تھا۔
پاکستان نے انڈیا پر کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔
پہلگام حملے میں پاکستانی عسکریت پسندوں کے ملوث ہونے کا الزام لگا کر پاکستانی علاقوں پر فضائی حملے کیے تھے اور ڈرون پاکستانی حدود میں بھیجے تھے جنہیں پاکستان نے تباہ کرنے کا دعوی کیا تھا۔
اس کے جواب میں پاکستان نے انڈین فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا جس کے چند ہی گھنٹوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت پر دونوں ملکوں کے درمیان فائر بندی ہوگئی تھی۔
یہ کشیدگی ایک ایسے وقت میں بڑھ رہی ہے جب دونوں ممالک اپنے داخلی مسائل اور اقتصادی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں، اور دونوں کے عوام میں ایک دوسرے کے خلاف جذبات میں شدت آ رہی ہے۔