امریکہ میں موجود پاکستانی وفد کے سربراہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی کم کرنے اور جامع مذاکرات کے آغاز کے لیے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بلاول نے کہا: ’جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کے لیے ہماری حوصلہ افزائی میں کردار ادا کیا، میں سمجھتا ہوں کہ اب انہیں دونوں فریقین کو جامع مذاکرات کی جانب راغب کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ’میرا خیال ہے ہمارے دو بڑے ممالک کے 1.7 ارب عوام کی قسمت ان بے چہرہ، نامعلوم غیر ریاستی عناصر کے ہاتھ میں نہیں چھوڑی جا سکتی، اور یہ جو انڈیا خطے پر ایک نیا معمول مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر انڈیا میں کہیں بھی کوئی دہشت گرد حملہ ہو تو کوئی ثبوت فراہم کرنے کی ضرورت نہیں، سیدھا جنگ کا راستہ اختیار کیا جائے۔
’اور اگر پاکستان میں کوئی دہشت گرد حملہ ہو تو باہمی اصول کے تحت ہمیں بھی ایسا ہی کرنا ہو گا۔ اس طرز عمل نے دو جوہری طاقتوں کے درمیان فوجی تصادم کا خطرہ خطرناک حد بڑھا دیا ہے۔‘
کئی دہائیوں میں بدترین فوجی بحران کے چند ہفتے بعد انڈیا اور پاکستان نے اپنے اعلیٰ قانون سازوں کو امریکہ بھیجا ہے تاکہ وہ وہاں اپنی اپنی پوزیشنز پیش کر سکیں۔
دنیا بھر کا دورہ کرنے کے بعد دونوں وفود اس ہفتے ایک ہی وقت میں واشنگٹن پہنچے ہیں۔دونوں ممالک نے ایک جیسی حکمتِ عملی اختیار کی ہے۔
دونوں وفود کی قیادت ایسے تجربہ کار سیاست دان کر رہے ہیں جو اپنی اپنی حکومتوں کے ناقد رہے ہیں اور مغربی سامعین سے مؤثر انداز میں بات چیت کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔
بلاول نے اے ایف پی کو بتایا: ’مجھے انڈین حکومت کی ہچکچاہٹ کی بالکل سمجھ نہیں آتی۔‘
بلاول بھٹو زرداری چار جون، 2025 کو واشنگٹن میں واقع پاکستانی سفارت خانے میں اے ایف پی کو انٹرویو دے رہے ہیں (اے ایف پی)
’میں بہت سے معاملات میں امریکہ پر تنقید کرتا ہوں، لیکن جہاں وہ درست قدم اٹھاتے ہیں، جہاں وہ ایک مشکل کام — یعنی جنگ بندی کروانے — میں کامیاب ہوتے ہیں، وہاں انہیں سراہا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا، ’صدر ٹرمپ نے ایک نہایت خطرناک تصادم کو روکنے میں مدد کی، جہاں کشیدگی تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’انڈیا نے پاکستان میں ایسے میزائل فائر کیے جو جوہری یا روایتی دونوں اقسام کے ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگرچہ ان پر جوہری ہتھیار موجود نہیں تھے، مگر پاکستان کے پاس یہ فیصلہ کرنے کے لیے صرف 30 سیکنڈ ہوتے ہیں کہ آیا یہ جوہری میزائل ہے یا نہیں۔‘
پاکستانی وفد کی رکن سینیٹر شیری رحمان نے واشنگٹن میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی کو امن نہ سمجھا جائے، یہ نہایت نازک اور کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ حالیہ 87 گھنٹوں کی کشیدگی محض ’ٹریلر‘ تھا جبکہ اصل خطرہ باقی ہے۔ شیری نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں جوہری تصادم ناقابل کنٹرول ہو گا اور پاکستان اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنے دفاع کا مکمل حق رکھتا ہے۔
انڈین وفد کے سربراہ ششی تھرور نے کہا کہ انڈیا امن کا خواہاں ہے مگر شہریوں کی سلامتی اس کی اولین ترجیح ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہم خطے میں پائیدار امن کے لیے بات چیت کے حامی ہیں، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔
’ہم چاہتے ہیں کہ تمام فریق ذمہ داری کا مظاہرہ کریں تاکہ جنوبی ایشیا میں استحکام ممکن ہو سکے۔‘