پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پیر کو امریکہ پر زور دیا ہے کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لیے جامع مذاکرات کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق اقوام متحدہ میں قائم مقام امریکی سفیر ڈوروتھی شیا نے پیر کو نیویارک میں بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات کی تاکہ جنوبی ایشیا کی حالیہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔
اس موقعے پر بلاول بھٹو زرداری، جو نو رکنی اعلیٰ سطح کے پارلیمانی وفد کی قیادت کر رہے ہیں، نے انڈیا کی جانب سے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو معطل رکھنے کے اقدام سے نمٹنے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور کہا کہ یہ اقدام پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے مترادف ہے۔
امریکی سفیر سے ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری نے امریکہ کی حکومت، خاص طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی میں کردار ادا کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے سفیر ڈوروتھی شیا کو 22 اپریل 2025 کے پہلگام حملے کے بعد کی صورت حال پر بریفنگ دی اور گہری تشویش کا اظہار کیا کہ انڈیا نے کسی بھی قابل اعتماد تحقیقات یا تصدیق شدہ شواہد کے بغیر فوری طور پر الزام پاکستان پر عائد کر دیا۔
وفد کے سربراہ نے زور دیا کہ اس طرح کے قبل از وقت اور بے بنیاد الزامات نہ صرف کشیدگی کو بڑھاتے ہیں بلکہ تعمیری مکالمے اور امن کے امکانات کو بھی کمزور کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمیشہ صف اول میں رہا ہے اور اس جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔‘
اس سے قبل پاکستانی پارلیمانی وفد نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب رکن ممالک کے نمائندوں سے ملاقات میں انڈیا کے پراپیگنڈے کو بے نقاب کیا۔
ریڈیو پاکستان کے مطابق وفد نے ڈنمارک، یونان، پاناما، صومالیہ، الجزائر، گیانا، جاپان، جنوبی کوریا، سیرالیون اور سلووینیا کے نمائندوں کو پاکستان کے مؤقف سے آگاہ کیا۔
وفد نے انڈیا کے ساتھ تصفیہ طلب معاملات، خاص طور پر جموں و کشمیر کے تنازع کے حل کے لیے تحمل، سندھ طاس معاہدے کی بحالی اور جامع مذاکرات کے آغاز کے لیے پاکستان کے عزم پر زور دیا۔
وفد نے سلامتی کونسل کے منتخب ارکان کو بتایا کہ سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے سے پاکستان میں پانی کی قلت، غذائی بحران اور ماحولیاتی تباہی پیدا ہو سکتی ہے۔
وفد نے سلامتی کونسل کے ارکان سے مطالبہ کیا کہ وہ صرف تنازعے کے انتظام تک محدود نہ رہیں بلکہ جنوبی ایشیا میں تنازعے کے حل کی فعال حمایت کریں۔
وفد کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے انڈیا کے بے بنیاد الزامات کو دلائل اور شواہد کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے واضح طور پر کہا کہ ’انڈیا کی جانب سے پاکستان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔ یہ الزامات کسی بھی قابل اعتماد تحقیقات یا تصدیق شدہ شواہد کے بغیر قبل از وقت لگائے گئے۔‘
بلاول بھٹو زرداری نے زور دیا کہ انڈیا کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات، جن میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنانا اور سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنا شامل ہے، خطے کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انڈین جارحیت پر پاکستان کا ردعمل متوازن، ذمہ دارانہ اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تھا۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے منتخب ارکان نے پاکستان کی سفارتی کوششوں کو سراہا اور امن و سفارت کاری سے وابستگی کے اعادے کا خیرمقدم کیا۔
انہوں نے کشیدگی میں کمی، بین الاقوامی قانون کے احترام اور تنازعات کے پرامن حل کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اقوام متحدہ کا چارٹر ریاستوں کے طرزِ عمل کی رہنمائی کرے، خاص طور پر جنوبی ایشیا جیسے حساس خطوں میں۔
انہوں نے مزید کشیدگی کے خطرات کو تسلیم کرتے ہوئے سفارتی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
پاکستان انڈیا کشیدگی کے تناظر میں وزیر اعظم شہباز شریف کا تشکیل کردہ سفارتی لابنگ کے لیے سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی سربراہی میں آٹھ رکنی وفد پہلے مرحلے میں چھ روزہ دورے پر امریکہ میں موجود ہے۔
بلاول بھٹوزرداری کے علاوہ اس وفد میں ڈاکٹر مصدق ملک، خرم دستگیر، شیری رحمان، حناربانی کھر، فیصل سبزواری، تہمینہ جنجوعہ اور جلیل عباس جیلانی بھی شامل ہیں۔
امریکہ کے بعد یہ وفد لندن، پیرس اور برسلز جائے گا اور پاکستان کی جنوبی ایشیا میں امن قائم رکھنے کے لیے کوششوں کو اجاگر کرے گا۔
یہ وفد ایک ایسے وقت میں دورے پر گیا ہے، جب انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی علاقے پہلگام میں 22 اپریل 2025 کو ایک حملے میں کم از کم 26 افراد کی اموات کے بعد انڈیا نے اس حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیا لیکن پاکستان نے اس کی مسلسل تردید کرتے ہوئے اس واقعے کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
جس کے بعد انڈیا نے چھ اور سات مئی کی شب پاکستان میں متعدد اہداف کو نشانہ بنایا، جس کا پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا اور انڈین طیارے مار گرائے۔
جوہری ہتھیار رکھنے والے جنوبی ایشیا کے ان دونوں ممالک کے درمیان چار دن تک لڑائی کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں 10 مئی کو سیز فائر پر اتفاق کیا گیا، جس پر تاحال دونوں جانب سے عمل درآمد ہو رہا ہے، تاہم کشیدگی برقرار ہے اور دونوں جانب سے سخت بیانات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔