پاکستان اور انڈیا کی عالمی سفارتی لابنگ: کس کا پلڑا بھاری؟

پاکستان کے آٹھ رکنی وفد کے مقابلے میں انڈیا نے 45 پارلیمانی اراکین پر مشتمل سات وفود تشکیل دیے ہیں جنہیں مختلف ممالک کا ٹاسک دیا گیا ہے۔

بلاول بھٹو کی سربراہی میں تشکیل دیے گئے پاکستانی وفد کو دورہ شروع کرنے سے قبل منگل کو دفتر خارجہ میں بریفنگ بھی دی گئی ہے (دفتر خارجہ پاکستان)

ایک جانب پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کی قائم کردہ اعلیٰ سطحی سفارتی کمیٹی کے غیر ملکی دورں کی تفصیل کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی ہے تو دوسری جانب انڈیا کے وفود آج سے مختلف ممالک کے لیے راونہ ہو رہے ہیں۔ 

پاکستان نے انڈیا کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفد تشکیل دیا ہے جو امریکہ اور یورپ جائے گا اور عالمی برادری کو ’انڈین جارحیت‘ سے آگاہ کریں گے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ سے وفد کی روانگی سے متعلق جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’دورے کی روانگی سے متعلق ابھی کچھ حتمی نہیں بتایا جا سکتا۔‘

سفارتی وفد کتنے اراکین پر مشتمل ہے؟

بلاول بھٹوزرداری کی قیادت میں یہ آٹھ رکنی سفارتی کمیٹی/وفد میں اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر مصدق ملک، خرم دستگیر، شیری رحمان، حنا ربانی کھر، فیصل سبزواری، تہمینہ جنجوعہ اور جلیل عباس جیلانی شامل ہیں۔

سفارتی وفد کی جانب سے چار ممالک کے دورے کیے جائیں گے۔ وفد لندن، واشنگٹن، پیرس اور برسلز جائے گا اور پاکستان کی خطے میں امن قائم رکھنے کے لیے کوششوں کو اجاگر کرے گا۔ 

اسلام آباد میں سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا، دہشت گردی سے خطے کو پاک کرنے کا کوئی حل نکالنا چاہیے۔‘

بلاول بھٹو نے کہا کہ ’انڈیا نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی، پانی کے مسئلے کا حل نکالنے کی ضرورت ہے، آنے والی نسلوں کی ذمہ داری ہے کہ نئے مستقبل کے لیے جدوجہد کرنی ہے۔‘

سفارتی کمیٹی کے رکن مصدق ملک نے پی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ ’انڈیا نے جارجیت کر کے ’نیا نارمل‘ کرنے کی کوشش کی، بغیر شواہد کے الزامات لگانے کا بیانیہ ہم نے دفن کیا ہے، ہم امن پسند لوگ ہے، امن سے رہنا چاہتے ہیں، کسی نے جارحیت کی کوشش کی تو جواب اس سے کہیں زیادہ ہوگا جو حال ہی میں ہوا ہے۔‘

پاکستان کے آٹھ رکنی وفد کے مقابلے میں انڈیا نے اخباری اطلاعات کے مطابق 45 پارلیمانی اراکین پر مشتمل سات وفود تشکیل دیے ہیں جنہیں مختلف ممالک کا ٹاسک دیا گیا ہے۔

سفارتی محاذ پر کون کامیاب ہو گا؟

جنگی محاذ کے بعد سفارتی محاذ پر پاکستان اور انڈیا میں کس کی کامیابی ہو گی؟ انڈپینڈنٹ اردو نے اس ضمن میں سفارتی امور کے ماہرین سے بات چیت کی ہے۔

اسلام آباد میں مقیم سابق سفارت کار عاقل ندیم کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی وفد میں ماہر سیاست دان اور سفارت کاری کا تجربہ رکھنے والوں کے علاوہ سابق سفیروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔‘

عاقل ندیم کہتے ہیں کہ ’یہ ایک اچھا وفد ہے۔ چار ممالک جو منتخب کیے گئے ہیں اس لیے اہم ہیں کہ چاروں ملک سلامتی کونسل کے رکن ہیں جبکہ برسلز یورپی یونین کا ہیڈکواٹر ہے تو بہتر ہے کہ یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر کا ہی دورہ کیا جا رہا ہے۔ کم اور اہم ممالک کو منتخب کرنا عقلمندانہ قدم ہے۔‘

سنوبر تھنک ٹینک کے سربراہ ڈاکٹر قمر چیمہ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کے پاس تو تمام ثبوت موجود ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا انڈیا کے پاس ثبوت ہیں؟‘

ڈاکٹر قمر چیمہ کے مطابق ’عالمی برادری کو پہلے ہی پتہ چل چکا ہے کہ حقیقت کیا ہے، انڈیا کے وفود کی اہمیت تب ہوتی جب وہ پاکستان پر حملے سے پہلے صرف پہلگام واقعے کی بنیاد پر جاتے لیکن پاکستان پر حملے کے بعد انڈیا سفارتی جواز کھو چکا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’دوسری جانب انڈیا 32 ممالک میں وفد لے کر جا رہے ہیں تو ان 32 ممالک میں انڈیا کو ہر طرح کی وضاحت بھی کرنی پڑے گی کہ شملہ معاہدے سے ہٹ کیوں رہے ہیں، کشمیر کے مسئلے کا حل کیوں رکا ہوا ہے۔

’اس کے علاوہ پہلگام واقعے کے واقعاتی ثبوت بھی نہیں ہیں جو انڈیا کے کیس کو سپورٹ کریں۔ میری نظر میں انڈیا کو ڈپلومیٹک موو پراثر نہیں ہو گی۔‘

سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر کہتے ہیں کہ ’اس سفارتی کمیٹی کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں ہمارا نقطہ نظر پیش کیا جائے۔  مجھے لگتا ہے کہ یہ اب بھی دفتر خارجہ اور ہمارے سفیروں کی جانب سے کیا جا رہا ہے. وفود بھیجنا ایک پروفارما سرگرمی ہے جو کہ موثر ثابت ہو گی۔‘

پاکستانی وفد کو دفتر خارجہ میں بریفنگ

پاکستانی وفد کو دورہ شروع کرنے سے قبل منگل کو دفتر خارجہ میں بریفنگ بھی دی گئی ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق سینیئر حکام کی بریفنگ کے بعد پاکستان- انڈیا تعلقات کی موجودہ صورت حال پر بات چیت کی گئی اور پاکستان، انڈیا کے درمیان مستقبل کے امکانات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان وزارت خارجہ شفقت خان نے بتایا کہ ’پاکستان کے نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کے لیے جلد وفد اہم دورہ کرے گا، اور انڈیا کی حالیہ جارحیت پر پاکستان کا موقف دنیا کے سامنے رکھے گا۔‘

چار اہم ممالک کے دورے سے پاکستان کو کیا فائدہ ہو گا؟

سابق سفیر عاقل ندیم اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’انڈیا کی طرح زیادہ ممالک میں جانا اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ جن ممالک میں آپ جا رہے ہیں ان کاعالمی پالیسی میں کیا کردار ہے تاکہ آپ کے بیانیے کو تقویت ملے۔

’اس لیے چار اہم ممالک کا دورہ کرنا جو سلامتی کونسل کے بھی رکن ہوں، پاور فائیو کے بھی رکن ہوں، یورپی یونین کا سربراہی ملک بھی ہو تو یہ سب بہترین انتخاب ہے۔‘

انڈیا کی سفارتی لابنگ اور عالمی دورے

پاکستان انڈیا تنازع کے بعد انڈیا نے فوری طور پر عالمی لابنگ کو تیز تر کرنے کے لیے سفارتی وفد تشکیل دیا جو مشن پر روانہ ہو چکا ہے۔

انڈین پارلیمانی وفد میں انڈین اپوزیشن جماعتوں کے نمائندے بھی شامل ہیں جبکہ کانگریس کے ششی تھرور اس کی قیادت کر رہے ہیں۔

انڈیا نے سات پارلیمانی وفود تیار کیے ہیں جن میں چھ اراکین ہر گروپ میں موجود ہیں۔ یہ سات وفود 32 ممالک کے دورے کریں گے۔ ہر وفد الگ ملک کا دورہ کرے گا اور پہلگام واقعے سے لے کر آپریشن سندور تک کے تمام انڈین بیانیے عالمی سطح پر بتائے گا۔

انڈین وفد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا بھی دورہ کرے گا۔

انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق جو وفود تشکیل دیے گئے ہیں، ان کی قیادت کانگرس کے ششی تھرور، روی شنکر پرساد (بی جے پی)، سنجے کمار جھا (جنتا دل یو)، بیجینت پانڈا (بی جے پی)، کنی موژی کروناندھی (ڈی ایم کے)، سپریا سولے (این سی پی) اور شری کانت ایکناتھ شندے (شیوسینا) کو سونپی گئی ہے۔ انڈین وفود خلیجی، افریقی، یورپ، امریکہ اور ایشیا پیسفک کے دورے کریں گے۔ 

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان