دس مئی کے بعد کا نیا پاکستان اور اصل امتحان

چار دن کی جنگ کے بعد معاشی اور سیاسی اعتبار سے مایوسی کا شکار، دہشت گردی کی ماری قوم ایک پرچم تلے یوں اکٹھی ہوئی کہ نیشنلزم کا کھویا ہوا خواب تعبیر کی صورت اختیار کر گیا۔

کراچی کی یونیورسٹیوں کے طلبہ آپریشن بنیان مرصوص میں پاکستان کی فتح کا جشن مناتے ہوئے (اے ایف پی)

نہ ستاروں کی چال پر اندھا یقین ہے نہ ہاتھوں کی لکیروں پر یوں بھروسہ کہ نجومی کی ہر بات مان لیں اور عداد کے پھیرے میں نصیب ڈھونڈیں۔ مگر طلسم ہوشربا کی کہانیوں میں ایسا ضرور ہوا ہے کہ جادو کی چھڑی سے سب گھوم جائے۔

48 گھنٹوں میں ایک ٹوٹا پھوٹا، معاشی لحاظ سے کمزرو، سیاسی اعتبار سے تقسیم شدہ، تفریق اور بےیقینی میں مبتلا، ہر زاویے سے بٹا ہوا ملک کیسے دنیا میں ایک الگ شناخت لے کر ابھرا۔ سمجھ نہیں آتا کہ کس ستارے نے چال بدلی، کون سا عدد بھاری پڑا، گرہن کہاں لگا اور چاند کہاں ابھرا مگر مشرق کے چاند ستارے نے ایک بار پھر اوج پایا۔

ایک طویل عرصے کے بعد ہر پاکستانی وہ جذبہ محسوس کر رہا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ معاشی اور سیاسی اعتبار سے مایوسی کا شکار، دہشت گردی کی ماری قوم ایک پرچم تلے یوں اکٹھی ہوئی کہ نیشنلزم کا کھویا ہوا خواب تعبیر کی صورت اختیار کر گیا۔

اب اس سے اگلی منزل کیا ہو، فتح پانے والی قومیں اور راہنماء جیت کی کامیابی میں شکست کے اندیشے فراموش نہیں کرتے۔ انڈیا کی ’جارحانہ غلطی‘ ہمارے لیے کامیابی کا باعث بنی ہے مگر اب اسے کس طرح مستقل کامیابی میں بدلنا ہے، کیسے سیاسی اتحاد اور یگانگت کی جانب بڑھنا ہے اور کیونکر علم اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھنے کی جستجو کرنی ہے اس چیلنج کو قبول کرنا ہو گا، آخر کار اس کامیابی میں اصل “اعجاز” ٹیکنالوجی اور علم نے ہی دکھایا ہے۔

دس مئی کے بعد کا پاکستان ایک مختلف پاکستان کیوں ہے؟ اس لیے کہ پاکستان نے انڈیا کو صرف دفاعی محاذ پر شکست نہیں دی بلکہ اب تک سفارتی، سیاسی اور میڈیا کے محاذ پر بھی شکست دی ہے ۔ انڈیا نے پہلگام کے واقعے کے بعد اس یقین کے ساتھ پاکستان پر حملہ کیا کہ کمزور ریاست ایک ہی وار سے ڈھے جائے گی مگر یہ اس کی تاریخی غلطی ثابت ہوئی جس کا اعتراف اب دنیا کر رہی ہے۔

چار دن کی اس جنگ نے آغاز میں ہی فتح کے جھنڈے گاڑے جب پاکستان نے انڈیا کے چھ جدید طیارے مار گرائے لیکن اس ’جادوئی‘ کامیابی میں اہم کردار شاہینوں اور ایئر چیف کا رہا جو گذشتہ تین برسوں میں ائیر فورس کو علمی اور عقلی بنیادوں پر وہاں لے آئے ہیں جس کی مثال دنیا میں کم ملتی ہے۔

ہمارے جانباز شاہینوں کی تربیت نہ صرف جدید خطوط پر کی گئی ہے بلکہ ایئر فورس سائبر جنگ میں دنیا کی صف اول کی فورس بن چکی ہے، اس کا کریڈٹ ائیر چیف کی قائدانہ صلاحیتوں کو جاتا ہے۔ پاکستان ایئر فورس وہ سرمایہ افتخار ہے جس نے فرنٹ لائن جنگجو کا کردار ادا کیا۔ یہ سب ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہوا جو چھ اور سات اور پھر نو اور دس مئی کی رات چومکھی لڑائی میں پاکستان کی فتح کی صورت بنا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کی بری فوج نے بھی اہم  کامیابیاں حاصل کی ہیں اور بلاشبہ ایک مربوط نظام افواج پاکستان کے درمیان نظر آیا، یہاں جنرل عاصم منیر کی شخصیت نمایاں رہی۔ یہ وہ کامیابی ہے جس نے جنرل عاصم منیر کی شہرت کو زمین سے آسمان تک پہنچا دیا ہے۔

حافظ صاحب دس مئی سے پہلے جس مقام پر تھے اب وہ ایک اور حیثیت اختیار کر گئے ہیں جس کا اعتراف ان کے دشمن بھی کر رہے ہیں۔ دنیا میں جیتی ہوئی افواج کے سپہ سالار طاقت کو کس طرح اور کیسے استعمال کرتے ہیں اس سے تاریخ بھری پڑی ہے یہی وجہ ہے کہ دس مئی کے بعد پاکستان کی سیاست، حیثیت اور فوج کی اہمیت قطعی طور پر مختلف ہے۔ آرمی چیف ایک طاقت ور شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں مگر اب ان کا اصل امتحان یہیں سے شروع ہو گا۔

سیاسی سطح پر عمران خان کے ساتھ باقاعدہ رابطوں کے آغاز کی اطلاعات ہیں اس پیغام کے ساتھ کہ سیاست تشدد کے بغیر اور سیاسی جماعت کے طور پر کی جائے تو راستے کھلے ہیں لیکن یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ نو مئی کی تلافی کے بعد ہی آگے بڑھا جائے۔

یوں بھی نو مئی 2023 اور دس مئی 2025 میں بے حد فرق ہے۔ عمران خان کے ساتھ رابطے کس حد تک کامیاب ہوں گے یہ کہنا قبل از وقت ہے تاہم اس سے یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ریاست ذمہ داری کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ یوں بھی عمران خان کی آئندہ چند ہفتوں میں رہائی جس کا انحصار ان کے رویے پر ہے ایک بہترین حکمت عملی ثابت ہو سکتی ہے جو اسٹبلشمنٹ کی موجودہ حیثیت اور مقبولیت کو مزید بڑھا سکتی ہے اور ملک میں سیاسی استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔

اس بحران میں شہباز شریف کا بطور وزیراعظم کردار قابل ذکر رہا ہے۔ شہباز شریف موجودہ ماحول میں جس طرح آگے بڑھے ہیں اس سے ان کی سیاسی پختگی اور کردار مستحکم ہوا ہے تاہم اب انہیں سیاسی اعتبار سے ہم آہنگی کی سوچ کیسے پیدا کرنی ہے، یہ ایک بڑا چیلنج ہو گا۔

انڈین وزیراعظم پاکستان پر حملے کو ’نیو نارمل‘ قرار دے رہے ہیں جو ان کی خطے میں بر تری کے غرور یا علاقائی تسلط کی خواہش کا اظہار ہے، لہٰذا انڈیا کی جانب سے مشرقی محاذ پر حملے اور مغربی محاذ پر پراکسی وار کا خطرہ ٹلا نہیں۔ سفارتی سطح پر انڈیا کی جانب سے کل جماعتی وفد انڈیا کی کمزور حیثیت کی غمازی ہے۔ پاکستان نے مقابلے پر بلاول بھٹو کی سربراہی میں وفد تشکیل دے کر زبردست لائحہ عمل بنایا ہے۔ افغانستان کے محاذ مولانا فضل الرحمٰن کو آزمایا جائے تو قدرے بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔

پاکستان کو اب پہلے سے کہیں زیادہ اندرونی حالات اور خاص طور پر انتہاپسندی کے حوالے سے چوکنا رہنا ہو گا۔ داد وتحسین اپنی جگہ مگر اب جنگی بنیادوں پر ریاست کو اندرونی محاذ پر لڑنا ہو گا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس قومی یکجہتی کے ماحول میں نیشنل ایکشن پلان پر بھر پور عمل کیا جائے تاکہ اندرونی محاذ پر موجود بیرونی آلہ کاروں سے نمٹا جا سکے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر