انڈین وزیرِاعظم نریندر مودی کا پہلگام حملے پر فوری اور غیر مدبرانہ ردِعمل، اسلام آباد کے سوچے سمجھے جوابی اقدامات اور بین الاقوامی برادری کی گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اس ابھرتے ہوئے بحران پر سرد مہری نے اختتامِ ہفتہ پر اس تنازعے کو تباہ کن حد تک بڑھا دیا۔
سات مئی کی صبح انڈیا نے ’آپریشن سندور‘ شروع کیا، جس سے تصادم کے تیزی سے پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ جو محدود جنگ ایٹمی لکیر سے نیچے رہ کر لڑی گئی، وہ نہ جانے کتنے بڑے ان دیکھے جوے سے لبریز تھی۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان یہ بحران انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں جاری ریاستی سرپرستی میں کی جانے والی بربریت کا نتیجہ تھا، جہاں گذشتہ ماہ ایک سیاحتی مقام پر شدت پسندوں کے ہاتھوں 26 افراد قتل ہو گئے تھے۔ نئی دہلی نے بغیر کسی ثبوت کے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں پاکستانی عناصر ملوث تھے، جسے اسلام آباد نے فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے آزادانہ تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی۔
اس کے بجائے انڈیا نے پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور پنجاب پر فضائی حملے کیے، جن میں زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل استعمال کیے گئے۔
اتوار کے روز جنگ بندی کے بعد پاکستان نے اعلان کیا کہ اس بدترین تصادم میں 40 شہری اور 11 فوجی ہلاک ہوئے، جو دہائیوں میں انڈیا کے ساتھ سب سے شدید آویزش تھی۔
پاکستان کی افواج نے تیز رفتاری سے جواب دیا، جس میں سب سے نمایاں کارنامہ پانچ انڈین لڑاکا طیارے مار گرانا تھا، جن میں تین رفال، ایک روسی ساختہ Su-30 اور ایک MiG-29 شامل ہیں۔ اگرچہ یہ دفاعی کارروائی تھی، لیکن پاکستان نے انڈیا کو بھاری فوجی نقصان پہنچایا۔
پاکستان نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ انڈیا کی کسی بھی جارحانہ کارروائی کا ’سخت اور فیصلہ کن‘ جواب دیا جائے گا۔ سات مئی کو قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) نے انڈین حملوں کے جواب میں مسلح افواج کو کارروائی کا اختیار دے دیا۔ اعلامیے میں کہا گیا: ’اقوام متحدہ کے چارٹر کی شق 51 کے مطابق پاکستان معصوم شہریوں کے خون اور اپنی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی کا بدلہ لینے کے لیے اپنے منتخب وقت، مقام اور طریقے سے، اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج کو اس سلسلے میں جوابی کارروائی کا مکمل اختیار دے دیا گیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کے لیے ان فضائی حملوں کا جواب دینا ناگزیر تھا تاکہ انڈیا کی مستقبل کی جارحیت کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ ڈیٹرنس حکمتِ عملی (روک تھام کی پالیسی) کے لیے جنگی ارادے اور صلاحیت کا عملی مظاہرہ لازم ہوتا ہے۔ پاکستان روایتی اور ایٹمی جنگی صلاحیت رکھتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سات مئی کو انڈیا کی کارروائی کو روکا نہ جا سکا۔ چنانچہ ڈیٹرنس کی برابری بحال کرنے کے لیے پاکستان کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ بھرپور جواب دے کر اپنی جنگی صلاحیت کا اظہار کرے۔
اگر پاکستان کسی بھی وجہ سے فوجی ردِعمل سے گریز کرتا، تو اس کی ڈیٹرنس پالیسی اور خطے میں سٹریٹجک استحکام پر سنگین اثرات مرتب ہوتے۔ اس کے علاوہ یہ اقدام وزیراعظم مودی کے اس ’نئے معمول‘ (نیو نارمل) کو بھی توڑنے کے لیے ضروری تھا، جس کے تحت وہ پاکستان کے خلاف ’سرجیکل سٹرائیکس‘ کر کے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں، اور محدود جنگ کو ایٹمی جنگ میں جانے سے روکے رکھتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ اختتامِ ہفتہ کشیدگی کے دوران ایک ایسا لمحہ آیا جب دنیا بھر کے تجزیہ کار یہ سوال کر رہے تھے کہ انڈیا اور پاکستان کس جانب جا رہے ہیں؟
پاکستان کی فوجی جوابی کارروائی کے ممکنہ نتائج تنازعے کے مزید پھیلاؤ اور جنوبی ایشیا میں استحکام کے مزید بگاڑ کی صورت میں نکل سکتے تھے۔ پاکستان کی ’اینٹ کا جواب پتھر‘ کی حکمتِ عملی میں ازخود مزید شدت آنے کا خدشہ تھا، جو مستقبل میں مزید تصادم کی راہ ہموار کر سکتا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ اختتامِ ہفتہ کشیدگی کے دوران ایک ایسا لمحہ آیا جب دنیا بھر کے تجزیہ کار یہ سوال کر رہے تھے کہ انڈیا اور پاکستان کس جانب جا رہے ہیں؟
یوکرین اور اسرائیل کی جنگوں کے تجربات نے افقی اور عمودی روایتی جنگوں کے بڑھنے کے خطرات کو ظاہر کیا ہے۔ سب سے تشویش ناک فرق یہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان دونوں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ملک ہیں، جبکہ یوکرینی اور فلسطینی غیر ایٹمی قوتیں ہیں۔
انڈیا دو بار اپنی فضائیہ کے ذریعے پاکستان کی سرزمین پر سرجیکل سٹرائیکس کر چکا ہے: 2019 اور 2025 میں۔ دونوں مواقع پر انڈین فضائیہ کی محدود صلاحیتیں پاکستان کے مقابلے میں بےنقاب ہوئیں۔
تاہم انڈیا کے حالیہ حملے گذشتہ حملوں سے اس لحاظ سے مختلف تھے کہ اس بار بین الاقوامی سرحد عبور کرتے ہوئے بہاولپور اور مریدکے پر حملے کیے گئے، جس نے تنازعے کو افقی اور عمودی دونوں سطح پر بڑھاوا دیا۔ ’ٹِٹ فار ٹَیٹ‘ حکمتِ عملی کے تحت فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں سٹریٹجک ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ پیدا ہو گیا۔
خلاصہ یہ کہ انڈیا کی حالیہ جارحیت کا پاکستان کی مسلح افواج کا بروقت اور مناسب جواب ضروری تھا۔ اگرچہ یہ اقدام خطرناک تھا، مگر پاکستان کی ڈیٹرنس حکمتِ عملی کی ساکھ کے لیے بھی ناگزیر تھا۔ بصورتِ دیگر انڈیا یہ غلط پیغام لے لیتا کہ وہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی بےخوفی سے جاری رکھ سکتا ہے۔
بشکریہ عرب نیوز۔ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال اسلام آباد میں مقیم تجزیہ کار اور قائداعظم یونیورسٹی کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں پروفیسر ہیں۔ ای میل: [email protected]، ایکس (سابقہ ٹوئٹر): @zafar_jaspal
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔