انڈیا اور پاکستان کے درمیان گذشتہ ہفتے مختصر لیکن مہلک فوجی جھڑپوں نے کشمیر کے متنازع علاقے پر طویل عرصے سے جاری تنازعے کو دوبارہ بھڑکا دیا، جس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ثالثی کی حیران کن پیشکش کی جو نئی دہلی میں بے چینی کا باعث بنی۔
انڈیا نے کھلے عام ٹرمپ کی اس تجویز پر کوئی ردعمل نہیں دیا کہ وہ کشمیر کے معاملے پر ’حل‘ تلاش کرنے میں مدد دے سکتے ہیں، جو ایک ایسا ہمالیائی علاقہ ہے جو دونوں ممالک کے زیر انتظام ہے اور دونوں اس پر مکمل حق جتاتے ہیں۔
اس کی مزاحمت غیر رسمی ذرائع اور حکومتی ذرائع کی محتاط بیانات کے ذریعے سامنے آئی ہے۔
22 اپریل کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردی کے حملے کے بعد، جس میں 26 افراد جان سے گئے، وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے پہلے قومی خطاب میں اپنے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پڑوسی ملک پر سخت مؤقف اختیار کیا، جس پر انہوں نے حملے کا الزام لگایا تھا۔
اسلام آباد نے ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
مودی نے کہا: ’میں عالمی برادری سے بھی یہ کہنا چاہتا ہوں - ہماری واضح پالیسی برقرار ہے: اگر پاکستان سے بات چیت ہوگی تو وہ صرف دہشت گردی پر ہوگی۔ اگر پاکستان سے بات ہوگی تو وہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر ہوگی۔‘
انہوں نے کہا: ’دہشت گردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ دہشت گردی اور تجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ اور پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔‘
یہ آخری جملہ انڈیا کی جانب سے دونوں ممالک کے درمیان تنازعے کے دوران اہم آبی معاہدے کو معطل کرنے کی دھمکی کا حوالہ تھا۔
مودی کے خطاب میں کہیں بھی ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کا ذکر نہیں تھا۔
یہ خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ انڈیا کشمیر کے تنازعے میں بیرونی مداخلت سے گریزاں ہے، جو 1947 کی تقسیم کے بعد سے اس کا مؤقف رہا ہے۔
چار روزہ تنازعے میں ڈرون، میزائل اور سرحد پار توپ خانے کا استعمال ہوا، جس میں کم از کم 66 افراد جان سے گئے۔
انڈیا نے کہا کہ جنگ بندی فوجی قیادت کے براہ راست رابطے سے ممکن ہوئی، نہ کہ کسی بیرونی مداخلت کے ذریعے۔
ٹرمپ نے تاہم اس کشیدگی میں کمی کا سہرا خود لیتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا کہ امریکہ نے امن قائم کرنے میں مدد کی اور وہ ’دونوں ممالک کے ساتھ کام کریں گے تاکہ کشمیر کے مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔‘
پاکستان نے ان تبصروں کا خیرمقدم کیا اور ٹرمپ کے ’تعمیری کردار‘ کی تعریف کی۔
انڈیا ٹو ڈے کے مطابق پاکستانی حکومت نے کہا: ’ہم صدر ٹرمپ کی جموں و کشمیر کے تنازعے کے حل کے لیے حمایت کو بھی سراہتے ہیں۔‘
انڈیا نے اس کے برعکس، عوامی طور پر خاموشی اختیار کی اور یہ مؤقف دہرایا کہ کشمیر ایک داخلی معاملہ ہے۔
ریٹائرڈ انڈین فوجی افسر میجر جنرل رمیشور رائے نے ٹرمپ کی پیشکش کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر متعلقہ اور دخل اندازی ہے۔
انہوں نے دی انڈپینڈٹ کو بتایا: ’جہاں تک انڈیا کا تعلق ہے، اس کا کوئی مطلب نہیں ہے کیونکہ ہمارا واضح مؤقف یہ ہے کہ کشمیر انڈیا اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مسئلہ ہے اور دنیا کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘
انہوں نے بظاہر شملہ معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’ٹرمپ کا اس معاملے سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے، اور ہم کسی بھی وقت اسے قبول نہیں کریں گے... ہم نے کبھی بھی جموں و کشمیر کے مسئلے پر کسی تیسرے فریق کی مداخلت نہ مانگی ہے اور نہ خوش آمدید کہا ہے۔‘
اس معاہدے میں انڈیا کا مؤقف یہ تھا کہ کشمیر پر کوئی بھی بات چیت اگر ہو تو وہ صرف دو طرفہ بنیاد پر ہو۔
انڈین حکام نے دوبارہ کہا کہ وہ کشمیر کو غیر ملکی تبصرے یا ثالثی کے لیے ممنوع سمجھتے ہیں۔
ایک سینیئر انڈین اہلکار نے جنرل رائے کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے انڈیا ٹو ڈے کو بتایا: ’انڈیا کسی کی ثالثی نہیں چاہتا۔ ہمیں کسی کی ثالثی کی ضرورت نہیں۔‘
کنگز کالج لندن کے وزٹنگ پروفیسر ہارش وی پنٹ کے مطابق، یہ مؤقف انڈیا کی تزویراتی حکمت عملی میں گہرائی سے جڑا ہوا ہے۔
انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’عمومی طور پر، انڈیا میں بے چینی ہے، خاص طور پر اس لیے کہ انڈیا اسے ایسا مسئلہ نہیں سمجھتا جس میں دیگر ممالک کا کوئی کردار ہو۔ کسی دوسرے ملک کی مداخلت کا تصور ہی انڈیا کے لیے ناقابل قبول ہے۔‘
حالیہ کشیدگی نے پہلے کے مقابلے میں ایک تبدیلی کی نشاندہی کی ہے، جو زیادہ تر متنازع لائن آف کنٹرول تک محدود تھیں۔ اس بار دونوں طرف سے ایک دوسرے کے علاقوں میں مزید اندرونی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا، جس سے دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک بڑی جنگ کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے بیانات نے پاکستان کی دیرینہ کوششوں کو تقویت دی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو دوبارہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنایا جائے۔
واشنگٹن میں مقیم جنوبی ایشیائی تجزیہ کار مائیکل کوگل مین نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک بنیادی اور مستقل مقصد کشمیر کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا ہے اور یہی یہاں ہوا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ انڈین حکومت کے لیے باعث تشویش ہے، جو اس مسئلے کو حل شدہ سمجھتی ہے۔‘
میجر جنرل رائے نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ ٹرمپ کے تبصرے نے غیر ارادی طور پر پاکستان کو اس تزویراتی ہدف کو حاصل کرنے میں مدد دی۔
انہوں نے کہا: ’پاکستان ایک بار پھر کشمیر کو عالمی معاملات کے مرکز میں اور خاص طور پر امریکہ کی توجہ کا مرکز بنانے میں کامیاب رہا ہے۔ اور یہ ان کامیابیوں میں سے ایک ہے جو بظاہر پاکستان نے اس بحران کے دوران حاصل کی ہیں، جو 22 اپریل سے بڑھ رہا ہے۔‘
انڈیا میں اپوزیشن رہنماؤں نے ٹرمپ کے بیانات کو حکومت کے بحران سے نمٹنے کے طریقے کو چیلنج کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کانگریس کے ترجمان جے رام رمیش نے سوال اٹھایا: ’کیا ہم نے تیسرے فریق کی ثالثی کے دروازے کھول دیے ہیں؟‘
مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے سابق قانون ساز سواپن داس گپتا نے کہا کہ جنگ بندی کا فیصلہ انڈیا میں اس لیے بھی مقبول نہیں ہوا کیونکہ ’ٹرمپ اچانک نمودار ہوئے اور اپنا فیصلہ سنا دیا۔‘
پروفیسر پنٹ نے ٹرمپ کے تبصروں کے عملی اثر کو کم اہمیت دی۔
انہوں نے کہا: ’ٹرمپ انتظامیہ میں کوئی بھی واقعی کشمیر میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ میرا نہیں خیال کہ ٹرمپ کو خاص طور پر دلچسپی ہے۔ وہ تو کشمیر کی تاریخ تک نہیں جانتے۔ شاید یہ اس لمحے کا دباؤ تھا، محض انڈیا اور پاکستان کے درمیان دشمنی کو ختم کرنے کے لیے۔ اس وقت امریکی خارجہ پالیسی کے مختلف مفادات ہیں اور ان کی ترجیحات مختلف ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’ٹرمپ انتظامیہ، اگر کچھ بھی ہو، تو انتہائی علیحدگی پسند ہے۔ یوکرین اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں کو ختم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان تنازعات سے نکلنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اگر پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کشمیر میں دلچسپی رکھتی ہے تو ’وہ خوابوں کی دنیا میں جی رہے ہیں۔‘
پیر کی رات کے خطاب میں، مودی نے کشمیر میں 22 اپریل کے حملے کے جواب کو انڈیا کی ایک منظم نئی انسداد دہشت گردی پالیسی کا حصہ قرار دیا۔ ’اس نے ایک نیا معیار قائم کیا ہے - ایک نیا معمول۔‘
اشارہ یہ تھا کہ اگر دہشت گرد دوبارہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں - اور انڈیا دوبارہ اس کا الزام پاکستان پر عائد کرتا ہے - تو اس کے بعد پاکستانی علاقے پر حملے ہوں گے۔
اگرچہ مودی نے اس 30 منٹ کے خطاب میں اس نقطہ نظر کے اصول واضح کیے اور اسے ’اپنی شرائط، اپنے طریقے‘ کے تحت انڈیا کا جواب دینے کا حق قرار دیا، لیکن حیرت انگیز طور پر انہوں نے ایک بار بھی کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ خطے میں دیرپا امن کے لیے کشمیریوں کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے پروین ڈونتھی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’دونوں ممالک کو ایک پائیدار امن عمل کے لیے مذاکرات کی میز پر کشمیریوں کو جگہ دینا ہوگی۔ کشمیر کے شہریوں نے دونوں طرف کی فوجوں کے مقابلے میں زیادہ جانی نقصان اٹھایا ہے۔‘
بہت سے کشمیریوں کے لیے یہ طویل تنازع ان کی زندگی کا ایک بوجھ بن چکا ہے۔
سری نگر کی ایک طالبہ شازیہ تبسم نے کہا: ’ایمانداری سے بات کریں تو، انڈیا اور پاکستان کشمیر پر لڑ رہے ہیں۔ تو اسے ایک بار اور ہمیشہ کے لیے حل کر دیا جائے۔‘
© The Independent