جب نصرت فتح علی خان کے فوٹوگرافر نے ان سے ماڈلنگ کروائی

نصرت فتح علی خان کی یادیں ان کے ذاتی فوٹوگرافر بشیر اعجاز کے لینز سے۔

پاکستان کے نامور قوال نصرت فتح علی خان سے وابستہ رہنے والے افراد آج بھی ان کی یادوں کو دل سے لگائے ہوئے ہیں۔

انہی میں فیصل آباد کے سینیئر فوٹوگرافر بشیر اعجاز شامل ہیں، جو نہ صرف نصرت صاحب کے ہم جماعت اور قریبی دوست تھے بلکہ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ نصرت فتح علی خان کے ذاتی فوٹوگرافر رہے۔

بشیر اعجاز کے پاس نصرت فتح علی خان کی سینکڑوں نایاب تصاویر کا ذخیرہ موجود ہے، جنہیں انہوں نے خود اپنے کیمرے سے اتارا۔

ان میں سے ایک بڑی تعداد انہوں نے اپنی پکچر گیلری کے ایک کمرے میں آویزاں کر رکھی ہے۔ انہوں نے یہ کمرہ نصرت کی یادوں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔

16 اگست کو نصرت فتح علی خان کی برسی کے موقعے پر بشیر اعجاز نے ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا ’ہم پاکستان ماڈل ہائی سکول میں ہم جماعت تھے۔ نصرت صاحب کی موسیقی میں تربیت گھر سے ہی شروع ہو چکی تھی۔

’اکثر اساتذہ انہیں کچھ سنانے کو کہتے اور وہ کوئی ہلکی پھلکی چیز گا دیتے۔ جولی فیلو تھے، بڑا ہنس مکھ مزاج رکھتے تھے۔‘

بشیر اعجاز کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی فوٹوگرافی میں کوشش کی کہ نصرت صاحب کی عظمت اور فنکارانہ شان واضح ہو۔

’آپ کو نصرت فتح علی خان کی تصویروں میں ان کی شخصیت اور گائیکی کا رنگ نظر آئے گا۔ میری کئی تصاویر عالمی سطح پر چھپیں، میگزینز اور پاکستانی اخبارات میں شائع ہوئیں۔‘

بشیر اعجاز کے مطابق انہیں یہ منفرد موقع بھی ملا کہ انہوں نے نصرت صاحب کے گھر میں ان سے ماڈلنگ کروائی۔

’ان کے ملبوسات بدل بدل کر مختلف انداز میں تصویریں اتاریں، جو انہیں بہت پسند آئیں۔‘

نصرت فتح علی خان کے فن کے بارے میں وہ کہتے ہیں ’انہوں نے ایک صدی کے لیے گا دیا۔ نصرت آنے والے وقتوں کے لیے بھی وہ کام کر گئے جو آسان نہیں۔‘

بشیر کے مطابق نصرت صاحب ہر وقت ہارمونیم سامنے رکھ کر کچھ نیا تخلیق کرنے میں مصروف رہتے تھے۔

’لسوڑی شاہ روڈ پر جب بھی ہم ان کے گھر جاتے، چاہے دن ہو یا رات، وہ موسیقی میں مگن ہوتے۔ ہم تو رات دو، تین بجے واپس آ جاتے لیکن وہ صبح تک نئی چیزیں بناتے رہتے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ نصرت فتح علی خان نے قوالی میں کلاسیکی موسیقی کو اس انداز میں شامل کیا کہ عام لوگ بھی لطف اندوز ہونے لگے۔

’یہ انہی کا اعزاز تھا کہ انہوں نے کلاسیکی موسیقی کو عوام میں دوبارہ مقبول کر دیا۔‘

والد کی وفات کے بعد نصرت صاحب کی تربیت کی ذمہ داری ان کے تایا استاد مبارک علی خان نے سنبھالی۔

’انہیں بڑا دکھ تھا کہ بھائی کا انتقال ہو گیا ہے۔ اسی لیے کم عمری میں ہی نصرت کو قوال پارٹی کا کپتان بنا دیا۔‘

ان کی فنی زندگی کے آغاز کا ایک واقعہ یاد کرتے ہوئے بشیر اعجاز بتاتے ہیں کہ 1964 میں والد کی وفات کے بعد نصرت فتح علی خان جھنگ بازار کی موتی مسجد میں قوالی پیش کر رہے تھے کہ لوگوں نے ان کی باریک آواز پر جگتیں لگانا شروع کر دیں۔

’اُس وقت ان کی آواز نہیں نکلتی تھی تو لوگ طنزا جگتیں مارنے لگ گئے۔ استاد مبارک علی خان نے قوالی بند کروا دی کہ ہم نے قوالی نہیں کرنی۔

’وہاں سینکڑوں سامعین موجود تھے تو بڑی مصیبت بن گئی کہ اب کیا کریں۔ خیر، بڑی منت سماجت کے بعد، محلے داری تھی، ساتھ ہی لسوڑی شاہ روڈ تھا جہاں یہ رہتے تھے۔ محلے داروں نے منت ترلہ کیا، معافی مانگی تو پھر انہوں نے دوبارہ آغاز کیا۔‘

بشیر اعجاز کہتے ہیں کہ بعد میں ہم نے دیکھا وہ چھ، چھ گھنٹے، چار، چار گھنٹے قوالی کرتے اور تھکتے نہیں تھے۔

انہوں نے نصرت فتح علی خان کی موسیقی میں مہارت سے متعلق ایک واقعہ اور بتایا کہ جب وہ پہلی مرتبہ جاپان گئے تو سب نے ان سے کہا کہ آئیں سیر کرنے چلتے ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ آپ لوگ جائیں اور خود ہارمورنیم لے کر ہوٹل کے کمرے میں لگی ہوئی ایل سی ڈی پر جاپانی ٹی وی کی نشریات دیکھنے لگ گئے۔

’جب ہم واپس آئے تو خان صاحب اسی طرح موسیقی پر کام کر رہے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ جاپانیوں کا میوزک میں نے دیکھ لیا ہے۔

’کل میں ایسا مکس اپ کر دوں گا کہ یہ جاپانی حیران ہو جائیں گے کہ اس نے کیا کام کیا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے اسی روز جاپانی موسیقی میں سارے انترے وغیرہ سمیٹ کر جب اگلے روز انہیں شو میں پیش کیا تو جاپانی ان کے دیوانے ہو گئے۔

’انہوں نے جاپانیوں سے منوایا اور پھر وہ جب بھی گئے، لوگ ان کو پوجتے تھے، ننگے پاؤں انہیں سننے جاتے تھے۔

’صوفیانہ کلام میں انہوں نے کمال کر دیا۔ وہ پوری دنیا میں ایک سفیر بن گئے۔ بعد میں بھی جب انہوں نے ’اللہ ہو، اللہ ہو‘ گائی تو وہ ’اللہ ہو‘ کے نام سے مشہور ہو گئے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بشیر اعجاز کہتے ہیں نصرت فتح علی خان کو قوالی سے غزل اور گیت گائیگی کی طرف رحمت گرامو فون والے لائے تھے، اس ریکارڈنگ کمپنی کو نصرت کے سب سے زیادہ البم ریلیز کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

’رحمت گرامو فون کا عروج تھا۔ انہوں نے الخیام ہوٹل میں سو، ڈیڑھ سو آدمیوں کو بلانا، پھر نصرت سے کہنا کوئی نئی چیزیں سناؤ۔ غزل، گیت، گانے پھر انہوں نے وہ شروع کر دیا۔ وہ جو بھی گاتے وہی ہٹ ہو جاتا۔‘

ان کی شخصیت کے حوالے سے وہ کہتے ہیں ’میں نے اتنا باادب اور محبت کرنے والا انسان اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ پیسے کی ان کے نزدیک کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ قوالی سے جو کماتے، خاندان اور ٹیم پر خرچ کرتے۔‘

انہوں نے بتایا کہ شوکت خانم کینسر اسپتال کے لیے نصرت صاحب نے بیشتر پروگرام مفت کیے۔

’یہ افسوس کی بات ہے کہ انہوں نے یورپ اور امریکہ کے 75 فیصد دورے بغیر معاوضے کے کیے، مگر آج ہسپتال میں ان کے نام کا ایک وارڈ بھی نہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد میں جب نصرت فتح علی خان آڈیٹوریم بنا تو انہوں نے کوشش کی کہ وہاں ان کے کام اور تصاویر پر مبنی ایک گیلری قائم کی جائے۔

’ڈائریکٹر آرٹس کونسل سے میں نے کئی دفعہ کہا کہ آپ یہاں ایک گیلری بنائیں نصرت فتح علی خام کی۔ ان کی ساری کیسٹیں محفوظ کریں، ان کی ہر چیز وہاں ہونی چاہیے۔

’ان کی تصویریں میں دے دیتا ہوں۔ ان کی کوئی کم از کم دو، تین سو تصویریں لگی ہوئی ہوں۔ لوگ باہر سے آتے ہیں تو دیکھیں کتنا بڑا کام ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے دو، تین دفعہ آرٹس کونسل کو نصرت فتح علی خان کی تصاویر دیں تاکہ انہیں آڈیٹوریم کی گیلری میں لگایا جا سکے لیکن کسی نے اس کام پر توجہ نہیں دی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی موسیقی