نور مقدم کیس میں مجرم ظاہر جعفر کی سزائے موت برقرار رکھنے والے سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل جج جسٹس علی باقر نجفی نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا ہے کہ یہ کیس معاشرے میں پھیلتی ہوئی برائی ’لیو اِن ریلیشن شپ‘ کا براہِ راست نتیجہ ہے۔
نور 20 جولائی، 2021 کو اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف-7/4 کے ایک گھر سے مردہ حالت میں ملی تھیں۔ اسی روز موقعے پر گرفتار ہونے والے ظاہر کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج کی گئی۔
فروری 2022 میں ایک ڈسٹرکٹ اور سیشن جج نے ظاہر کو قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی اور ریپ کے جرم میں 25 سال قیدِ سخت کی سزا بھی دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مارچ 2023 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ان کی سزائے موت کو ناصرف برقرار رکھا بلکہ 25 سال قید کی سزا کو بھی ایک اور سزائے موت میں تبدیل کر دیا۔
اگلے ماہ ظاہر نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، لیکن اس سال مئی میں سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ن کی سزائے موت کو برقرار رکھا تھا۔
بینچ میں شامل جسٹس علی باقر نجفی کا، جو اب وفاقی آئینی عدالت کا حصہ بن چکے ہیں، ایک اضافہ نوٹ بدھ کو منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ موجودہ کیس بالائی طبقے میں پھیلتی ہوئی ایک برائی کا براہِ راست نتیجہ ہے، جسے ہم ’لِیو اِن ریلیشن شپ‘ کہتے ہیں، جس میں معاشرتی روایات کو نظر انداز کیا جاتا ہے، یوں کہ نہ صرف ملکی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے بلکہ اسلامی شریعت کے ذاتی قانون کی بھی، جو خدائے بزرگ و برتر کے خلاف براہِ راست بغاوت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’نوجوان نسل کو اس کے خوف ناک نتائج کو نوٹ کرنا چاہیے، جیسا کہ موجودہ کیس میں سامنے آیا، جو سماجی اصلاح کے لیے ایک موضوع بھی ہے تاکہ اصلاحی حلقوں میں اس پر گفتگو ہو سکے۔‘
جسٹس نجفی کے اس نوٹ پر سوشل میڈیا پر بحث ہو رہی ہے۔
صحافی بے نظیر شاہ نے ایکس پر لکھا ’جسٹس علی باقر نجفی کا ’لیو ان ریلیشن شپس‘ کو ایک ایسے کیس میں موردِ الزام ٹھہرانا، جس میں ایک خاتون کو بے رحمی سے قتل کیا گیا، ایک پریشان کن طرزِ فکر کی عکاسی کرتا ہے۔ خواتین کو انصاف ملنا چاہیے، فیصلے نہیں۔‘
Justice Ali Baqar Najafi’s note blaming “living relationships” in a case where a woman was brutally murdered reflects a troubling mindset.Women deserve justice, not judgment. https://t.co/hdhWQOYcrE— Benazir Shah (@Benazir_Shah) November 26, 2025
ماریانہ بابر کہتی ہیں تو کیا ’لیو اِن ریلیشن شپ‘ میں موت لازمی ہو جاتی ہے؟ کس قانون کے تحت؟
’کیا ایک لمحے کے لیے فاضل جج صاحب عدالت سے باہر کھڑے ہو کر یہ تصور کر سکتے ہیں کہ خون میں لتھڑی ایک بے سر لاش پڑی ہو اور اس کا سر کمرے میں ایک طرف لُڑھکا ہوا ہو؟ کیا اسلام نامحرم کا سر قلم کرنے کی اجازت دیتا ہے؟‘
So death is ordained in a "living relationship " ? Under which law?For a moment, can His Lordship step out of courtroom while standing outside, let his imagination go wild,and see a bloody,headless body with head kicked across room? Does Islam allow beheading of na mahram? https://t.co/5sVEYGyD5v— Mariana Baabar (@MarianaBaabar) November 26, 2025
ایک اور صارف منیب قادر لکھتے ہیں ’جسٹس نجفی کا نور مقدم کے بارے میں لکھا گیا Victim-blaming نوٹ پڑھ کر میں انتہائی بے چَین اور مضطرب ہوں، جس میں وہ ہمیں ‘لیو اِن ریلیشن شپس کی برائیوں’ پر لیکچر دیتے ہیں۔ وہ خود اب زندہ نہیں کہ ایسے کردار کش تبصروں کے خلاف اپنا دفاع کر سکے اور…
’کاش فاضل جج صاحب اُن ریپ اور گھریلو تشدد کی شکار خواتین کو انصاف دینے پر توجہ دیں جو یہ ظلم اپنے قانوناً شادی شدہ شوہروں، باپوں، بیٹوں یا بھائیوں کے ہاتھوں سہتی ہیں۔‘
I'm deeply disturbed to read Justice Najafi's victim-blaming note on Noor Mukadam, lecturing us on the 'vices of live-in relations'. She is no longer alive to defend herself against such character assassination &..
— Muneeb Qadir (@muneebqadirmmq) November 26, 2025
I wish His Lordship could focus on giving justice to rape &…