اسلام آباد کے مشہور نور مقدم قتل کیس میں مجرم کو پھانسی کی سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے سزائے موت برقرار رکھی اور خاموش گواہ نظریہ یا سائلنٹ وِٹنس تھیوری کا سہارا لیا۔ یہ خاموش گواہ کون تھا؟
اعلی عدالت نے گذشتہ روز جاری اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج ایک رئیل ٹائم فوٹیج ہے جو کسی بھی انسانی شہادت سے زیادہ مستند ہے۔ تصدیق ہو جانے کے بعد اسے خاموش گواہ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔‘
سپریم کورٹ کا تفصیلی تحریری فیصلہ 13 صفحات پر مشتمل ہے۔
جسٹس ہاشم خان کاکڑ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپیل کی سماعت کی اور 20 مئی کو مختصر فیصلہ جاری کیا تھا۔ تحریری فیصلہ جسٹس ہاشم کاکڑ نے لکھا۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے فوجداری مقدمات میں ڈیجیٹل ثبوتوں کو تسلیم کیا ہے۔ عدالت عظمی نے قرار دیا کہ ریکارڈ شدہ ویڈیو یا تصاویر بطور شہادت پیش کی جا سکتی ہیں، قابل اعتماد نظام سے لی گئی فوٹیج تصدیق کے بعد خود بخود شہادت بن سکتی ہے۔‘
عدالت نے کہا کہ ’ایک ایسے مقدمے میں جس میں قتل کا کوئی عینی شاہد موجود نہیں البتہ مجرم کی رہائش گاہ سے مقتول کی لاش کی برآمدگی، واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج، پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی رپورٹس اور آلہ قتل کی برآمدگی مناسب ثبوت ہیں۔‘
عدالت کا استفسار تھا کہ استغاثہ کا مقدمہ بنیادی طور پر واقعاتی ثبوتوں پر مبنی ہے۔
سینیئر قانون دان شاہ خاور نے بتایا کہ مجرم ظاہر جعفر کے پاس اب نظرثانی کا آپشن موجود ہے لیکن نظرثانی کا سکوپ بہت کم ہوتا ہے اور وہ اسی بینچ کے پاس جائے گی جس نے پہلے کیس سنا ہے۔
’آخری آپشن صدر پاکستان کے پاس رحم کی اپیل ہے۔ ایک طویل عرصے سے صدر پاکستان کے رحم کے اپیلوں کے فیصلے نہیں ہوئے تو اس کا فیصلہ بھی جلد متوقع نہیں ہے۔
’صدر پاکستان بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہیں اس کے بعد ہی فیصلہ کرتے ہیں۔‘
خاموش گواہ برطانیہ اور امریکہ میں بھی
سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں مستند ڈیجیٹل ثبوتوں کو بطور خاموش گواہ تسلیم کرتے ہوئے امریکہ اور برطانیہ کی بھی مثالیں دیں۔
عدالت نے کہا کہ ’جہاں عینی شاہد میسر نہیں تھا وہاں عدالتوں نے خاموش گواہ کی تھیوری کو اپنا لیا ہے۔ ویڈیو خود بولتی ہے کیونکہ جو واقعہ جیسے ہوا ہے اگر وہ حقیقی وقت میں ریکارڈ ہو رہا ہے اور پیش کی گئی فوٹیج میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی تو وہ اہم ثبوت کے طور پر مانا جائے گا۔‘
برطانیہ کے ایک نائٹ کلب میں واقعے کی فوٹیج کو عدالت میں پیش کیا گیا جس میں ملزم فوٹیج میں نظر آ رہا تھا۔ عدالت نے 2014 کے اس مقدمے میں فرانزک اور فوٹو فرامیٹک ٹیسٹ کے بعد ثبوت تسلیم کر لیا۔
عدالت عظمی نے مزید لکھا کہ اسی طرح کینیڈا میں سکیورٹی کیمرے میں ملزم کی جرم کرتے ہوئے ویڈیو موجود ہونے کی بنیاد پر سزا سنائی گئی حالانکہ اس واقعے کا چشم دید گواہ موجود نہیں تھا۔ امریکہ میں بینک ڈکیتی کیس میں اے ٹی ایم پر نصب کیمرہ فوٹیج بغیر گواہ کے قبول کی گئی۔ امریکی عدالتوں میں سائلنٹ وِٹنس اصول کو وسیع پیمانے پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔‘
ڈیجیٹل شواہد اب بنیادی شہادت
عدالت نے واضح کیا کہ ’اب ہمارے ملک میں بھی ڈیجیٹل شواہد انصاف دلانے کے لیے اہم کردار رکھتے ہیں۔ ماضی قریب میں ڈیجیٹل ثبوتوں کو سیکنڈری ثبوت سمجھا جاتا تھا لیکن مجرموں کی شناخت اور ان کو پکڑنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کر دی گئی ہے جس میں ڈیجیٹل شواہد کو پرائمری ثبوت مانا جائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سپریم کورٹ نے کہا کہ اگر سی سی ٹی وی فوٹیج مقررہ معیار پر پوری اترے تو تصدیق کی ضرورت نہیں ہے۔ ملزم کی جانب سے نور مقدم پر جسمانی تشدد کی ویڈیو ثبوت کے طور پر پیش کی گئی، سی سی ٹی وی فوٹیج، ڈی وی آر اور ہارڈ ڈسک قابلِ قبول شہادت ہیں، فرانزک کے بعد ویڈیو ریکارڈنگ میں کوئی ترمیم ثابت نہیں ہوئی، ملزم کی شناخت صحیح نکلی، ڈی این اے رپورٹ سے زیادتی کی تصدیق ہوئی، آلہ قتل پر مقتولہ کا خون موجود ہے۔‘
خاموش گواہ نئی نظیر
قانون دان شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کریمنل جسٹس سسٹم کو سپریم کورٹ نے ایک نئی جہد دی ہے۔ ’اب خاموش گواہ کا زمانہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ اگر عینی گواہ موجود نہیں ہے تو واقعاتی شواہد کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ سزا نہیں دی جا سکتی تھی۔ لیکن نور مقدم کیس میں سپریم کورٹ نے اب مثال قائم کر دی ہے۔
ان کا اصرار تھا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کو بھی جعلی شہادتوں پر تکیہ کرنے سے بہتر ہے کہ ڈیجیٹل شہادتوں کا فرانزک کروا کر عدالت میں پیش کریں۔ ’اب تو ہر گلی محلے میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں۔ اس سے انصاف کی فراہمی یقینی ہو گی۔ سی سی ٹی وی کیمرہ فوٹیج کا فرانزک اور ویڈیو میں نظر آنے والے کرداروں کا فوٹو گرامیٹیک ٹیسٹ کے بعد یہ ایک اہم ترین ثبوت ہے جو سخت سے سخت سزا کے لیے کافی ہے۔‘
تحریری فیصلے میں مزید کیا کہا گیا؟
عدالت نے کہا کہ ’ملزم ظاہر جعفر نور مقدم کا بے رحم قاتل ہے، ہمدردی کے قابل نہیں اور دونوں نچلی عدالتوں کا فیصلہ متفقہ طور پر درست قرار دیا جاتا ہے۔ عدالت نے ظاہر جعفر کی قتل میں سزائے موت برقرار جبکہ زیادتی کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی۔ عدالت نے کہا کہ ظاہر جعفر کی نور مقدم کو اغوا کرنے کے الزام کی سزا ختم، اس میں بری کیا جاتا ہے لیکن نور مقدم کو غیر قانونی طور پر اپنے پاس رکھنے/روکنے پر ظاہر جعفر کی سزا برقرار ہے۔‘
عدالت نے شریک ملزمان سے نرمی برتتے ہوئے سزائیں کم کرتے ہوئے جتنی قید کاٹ لی اس کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس علی باقر نجفی فیصلے کے حوالے سے اپنا اضافی نوٹ دیں گے۔
پس منظر
بیس جولائی 2021 کی شام اسلام آباد کے مہنگے سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ملزم کو موقع سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔
ظاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں۔ پولیس نے 24 جولائی کو جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔
ٹرائل کورٹ کا فیصلہ
چوبیس فروری 2022 کو سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کے مجرم ظاہر جعفر کو جرم ثابت ہونے پر اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے تعزیرات پاکستان دفعہ 302 کے تحت سزائے موت جبکہ ریپ کے جرم میں ظاہر جعفر کو 25 سال قید بامشقت کی سزا اور دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا۔
اغوا کے جرم میں ظاہر جعفر کو دس سال قید با مشقت کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر اور والدہ عصمت آدم جی کو بری کر دیا گیا۔ مالی جان محمد اور چوکیدار افتخار کو دس، دس سال کی قید سنائی۔ ظاہر جعفر کے والد سمیت نو ملزمان کو عدالتی فیصلے کے بعد اڈیالہ جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔
ہائی کورٹ میں اپیلیں
ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے بعد مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے سزا کالعدم قرار دینے کے لیے ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا جبکہ نور مقدم کے والد شوکت مقدم نے بری ہونے والے ملزمان کو سزائیں دینے اور زیر حراست مجرمان کی سزاؤں کو بڑھانے کی اپیل کی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مرکزی ملزم ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ 21 دسمبر 2022 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے فیصلہ سنایا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کر تے ہوئے شریک مجرمان محمد افتخار اور جان محمد کی سزا کے خلاف اپیلیں بھی خارج کر دی تھیں جنہیں ٹرائل کورٹ نے 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کی ریپ کے جرم میں 25 سال قید کی سزا بھی سزائے موت میں تبدیل کردی تھی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ظاہر جعفر کو دو مرتبہ سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔