نور مقدم کا قتل: اسلام آباد کا دل دہلا دینے والا کیس

سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کے قتل کیس کے مقدمے کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد آج (24 فروری) کو مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنادی گئی۔

نورمقدم قتل کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو 20 اکتوبر 2021 کو عدالت میں پیشی کے بعد پولیس اہلکار واپس لے جا رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سابق پاکستانی سفیر شوکت مقدم کی بیٹی نور مقدم کے قتل کے ہائی پروفائل مقدمے کی کارروائی نہ صرف مقامی میڈیا پر مسلسل نشر ہوتی رہی بلکہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی اس کی گونج سنائی دی۔

اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ گذشتہ برس 20 جولائی کو ہونے والا یہ قتل اسلام آباد کے پوش علاقے میں ہوا اور اس سے منسلک افراد اپر کلاس سے تعلق رکھنے والے تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جس طریقے سے مقتولہ کو قتل کیا گیا، اس نے لوگوں کو دہلا دیا اور پورے شہر میں سنسنی پھیل گئی۔

یہی وجہ ہے کہ اس کیس میں بےحد دلچسپی لی گئی اور عدالت میں کارروائی کے دوران اس کیس کے ایک ایک پہلو کا میڈیا میں تفصیل سے ذکر ہوا۔ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کسی مجرمانہ کیس کی سماعت میں اس قدر دلچسپی کی دوسری مثال نہیں ملتی۔

ہر سماعت کے وقت عدالت میں سینکڑوں صحافیوں کا جمگھٹا لگا رہتا تھا جو وہاں ہونے والی چھوٹی سی چھوٹی بات، معمولی سے معمولی قانونی نکتے اور ملزموں کے لباس سے لے کر بولنے کے انداز تک کی ہر تفصیل اپنے اداروں کو لائیو بھیجتے تھے۔

اس مقدمے کی سماعت کے دوران کئی ڈرامائی واقعات بھی پیش آئے۔ مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے عدالت میں چیخ پکار کی اور ان کی ذہنی صحت پر بھی سوال اٹھے۔

اس کے علاوہ ملزم نے پہلے نور مقدم کو قتل کرنے کا اعتراف کیا، لیکن بعد میں وہ اپنے بیان سے پھر گئے اور کہا کہ یہ قتل کسی اور نے کیا ہے۔

’میں امریکی شہری ہوں‘

ایک موقعے پر یہ ظاہر نے یہ بھی کہا کہ وہ امریکی شہری ہیں (I am an American citizen)۔ اس کے بعد قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ کہیں ریمنڈ ڈیوس کی طرح انہیں بھی بچ نکلنے کا موقع نہ مل جائے۔

تاہم جب انڈپینڈنٹ اردو نے امریکی سفارت خانے کے عہدیداروں سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ ظاہر جعفر کے پاس بےشک امریکی شہریت ہے لیکن ان کا ریمنڈ ڈیوس یا کسی اور کیس سے موازنہ نہیں بنتا کیوں کہ ’ظاہر جعفر سفارتی اہلکار نہیں ہیں اس لیے انہیں کوئی سفارتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے، بلکہ وہ عام شہری ہیں اور وہ پاکستانی شہریت بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں ایک بہیمانہ قتل کیا ہے، جس کی سفارت خانہ قطعاً کوئی حمایت نہیں کرتا۔ قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔‘

امریکہ سفارت خانے نے اس بارے میں ایک ٹویٹ بھی کی جس میں کہا گیا کہ امریکی شہری کسی ملک میں جرم کریں تو وہ اس ملک کے قانون کے تابع ہوتے ہیں۔ امریکی سفارت خانہ صرف انہیں وکیلوں کی فہرست فراہم کر سکتا ہے، مگر قانونی مشاورت نہیں دے سکتا، نہ عدالت کی کارروائی کا حصہ بن سکتا ہے۔

ظاہر جعفر کو اردو آتی ہے یا نہیں؟

کیس کے آغاز میں جسمانی ریمانڈ کے دوران جب ملزم کو کچہری میں پیش کیا جاتا تو وہ صحافیوں کو دیکھ کر خالص امریکی لہجے میں انگریزی بولتے، جس کی وجہ سے تاثر ابھرا کہ شاید انہیں اردو زبان نہیں آتی۔ جب ملزم کو پیش کیا جاتا تو باہر موجود صحافی اپنی بساط کے مطابق حتی الامکان کوشش کرکے انگریزی میں ظاہر جعفر سے بات کرتے اور نور مقدم کو قتل کرنے کی وجہ جاننا چاہتے۔

تاہم جب ہم نے کیس کی تفتیش سے منسلک اعلیٰ پولیس افسران سے پوچھا گیا کہ ’کیا ظاہر جعفر کو بالکل اردو نہیں آتی؟‘ تو انہوں نے کہا کہ وہ نہ صرف اردو بلکہ پنجابی بھی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔

اس انکشاف کے بعد کچہری میں صحافیوں نے ظاہر سے اردو میں سوال کرنا شروع کر دیے۔

کیمرے چھیننے کی کوشش

ایک موقعے پر ظاہر جعفر کی والدہ عصمت آدم جی نے میڈیا کے کیمرے چھیننے کی بھی کوشش کی تھی اور عدالت سے کہا تھا کہ میڈیا کو کمرہ عدالت میں نہ آنے دیا جائے۔

اس پر صحافیوں نے احتجاج بھی کیا تھا۔ اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں قتل کے کئی مقدمات روزانہ کی بنیاد پر لگے ہوتے ہیں لیکن یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ تھا، جس کی وجہ سے ایف ایٹ کچہری میں میڈیا نمائندوں کی بڑی تعداد آتی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ کیس سوشل میڈیا پر بہت پذیرائی حاصل کر رہا تھا۔ مقتولہ نور مقدم خود ایک ایکٹویسٹ بھی تھیں اور عورت مارچ میں شریک ہوا کرتی تھیں۔

ملزم نے مختلف رنگ بدلے

دو ماہ ریمانڈ کی کارروائیاں اور چار ماہ ٹرائل کے دوران ظاہر جعفر نے مختلف رویے بدلے۔ آغاز میں انہیں یہ گمان تھا کہ وہ امریکی شہری ہیں تو امریکی سفارت خانہ انہیں بچا لے گا لیکن جب سفارت خانے نے اپنا موقف واضح کر دیا تو انہوں نے عدالت آتے وقت غصے اور اکھڑ پن کا مظاہرہ کیا اور پولیس والوں سے ہاتھا پائی بھی کی۔

جب انہیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا تو انہوں نے جیل کا کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور بسکٹ کھا کر گزارا کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں ان کی والدہ عصمت آدم جی کی ضمانت کے بعد ان کے گھر سے کھانا جیل لے جایا جاتا تھا۔

ذہنی بیماری کی میڈیکل رپورٹ

ٹرائل مکمل ہونے سے دو ماہ قبل ملزم ظاہر جعفر نے ’ذہنی بیمار بننے کی کوشش‘ بھی کی۔ عدالت آتے وقت میڈیا کے کیمروں کو دیکھ کر وہ عجیب اشارے کرتے جیسے ہوش و حواس میں نہ ہوں۔

کمرہ عدالت میں بھی جب انہوں نے شور کیا تو جج نے پولیس اہلکاروں سے کہا کہ انہیں باہر لے جائیں۔ عدالتی کمرے سے نکلتے وقت ظاہر نے چلنے سے انکار کر دیا تو پولیس اہلکار انہیں ہاتھوں اور بازوؤں سے پکڑ کر گاڑی تک لے کر گئے۔

اس سے اگلی پیشی کے دوران انہیں کرسی پر بٹھا کر عدالت میں پیش کیا گیا، جب کہ اس سے اگلی پیشی پر بات کرسی سے بڑھ کر سٹریچر تک پہنچ گئی۔

اس کے بعد عدالت نے ظاہر جعفر کی میڈیکل رپورٹ طلب کی، جس سے پتہ چلا کہ وہ ذہنی طور پر صحت مند ہیں۔ رپورٹ آنے کے بعد ظاہر جعفر نے اگلی سماعتوں میں غیر معمولی رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ ایک عام ملزم کی طرح پیش ہوئے۔

مقدمے کی تفصیلات

20 جولائی 2021 کی شام نور مقدم کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں قتل کر دیا گیا تھا۔ ملزم ظاہر جعفر کو موقعے سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔ وہ مشہور کاروباری شخصیت ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں۔

پولیس نے 24 جولائی کو جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لے لیا۔ ملزم کی والدہ کی سپریم کورٹ نے خاتون ہونے کی بنا پر ضمانت منظور کرلی تھی جبکہ والد اور دیگر ملوث ملزمان اڈیالہ جیل میں ہیں۔

اس کیس میں 24 جولائی کے بعد شواہد اکٹھے کرتے ہوئے پولیس نے تمام ملوث افراد کو زیر حراست لے لیا تھا، جس میں مکان کا مالی، ڈرائیور اور چوکیدار شامل ہیں، اس کے علاوہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والدین جو وقوعے کے وقت کراچی میں موجود تھے لیکن بذریعہ فون بیٹے سے رابطے میں تھے، انہیں بھی پولیس نے سہولت کاری کے جرم میں حراست میں لیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملزمان کے جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد پولیس نے اپنی رپورٹ تیار کی اور 11 ستمبر کو ملزمان کے اعترافی بیانات پر مشتمل کیس کا چالان ضلعی عدالت میں پیش کر دیا۔ پولیس کے سامنے ملزم نے جرم کا اقرار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نور نے شادی سے انکار کیا تو اس لیے اسے قتل کر دیا۔

پولیس نے اپنے چالان میں ملزم کے والدین کے بارے میں لکھا تھا کہ والدین وقوعہ ہونے سے پہلے ہی حالات سے باخبر تھے کیونکہ ظاہر جعفر ان سے رابطے میں تھا۔ اگر والدین بروقت پولیس کو اطلاع کر دیتے تو یہ نور قتل ہونے سے بچ سکتی تھی۔

ملازمین بارے بھی پولیس کے چالان میں موقف تھا کہ جب گھر میں ان کی آنکھوں کے سامنے یہ واقعہ ہو رہا تھا اور نور نے بھاگنے کی کوشش بھی کی تھی، اگر چوکیدار انہیں گیٹ کھولنے سے نہ روکتا تو اس افسوسناک واقعے کو وقوع پذیر ہونے سے روکا جا سکتا تھا۔

فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی

فرد جرم عائد کرنے کے لیے پہلے چھ اکتوبر کی تاریخ دی گئی، لیکن پھر 14 اکتوبر 2021 کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کے دوران ظاہر جعفر نے کہا تھا کہ ’میں جیل میں مرنا نہیں چاہتا، میری زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ مجھے پھانسی دیں دے۔ میں ایسے جیل میں نہیں رہنا چاہتا۔ میرے پاس کوئی چوائس نہیں تھی۔ ہاں میں نے اعتراف جرم کیا تھا۔ میرے ہاتھ سے یہ سرزد ہوا آپ نے سزا دینی ہے یا معافی؟‘

البتہ بعد ازاں جب چارج شیٹ پڑھ کر سنائی گئی تو ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا تھا۔ سماعت کا باقاعدہ آغاز 20 اکتوبر سے ہوا جس میں پہلے گواہ کا بیان قلمبند کیا گیا۔

اس دوران ظاہر جعفر کے والدین نے مقدمے کے اخراج کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی رابطہ کیا تھا لیکن ہائی کورٹ نے درخواست مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کو دو ماہ میں کارروائی مکمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔ بعد ازاں ٹرائل کورٹ نے مقدمہ مکمل کرنے کے لیے مزید وقت مانگا تھا۔

ملزمان کے دفعہ 342 کے بیانات

شہادتیں قلمبند اور جرح مکمل ہونے کے بعد ملزمان کو ضابطہ فوجداری دفعہ 342 کے تحت سوال نامہ دیا گیا۔ 342 کے بیان میں ظاہر جعفر اپنے پچھلے بیانات سے منحرف ہو گئے اور کہا کہ ’نور نے میرے گھر ’ڈرگ پارٹی‘ رکھی تھی۔ مجھے ہوش نہیں رہا اور جب ہوش آیا تو دیکھا نور کا قتل ہو چکا ہے۔‘

انہوں نے موقف اپنایا کہ پارٹی میں بہت سے لوگ تھے ان میں سے کسی نے نور کا قتل کر دیا اور ریپ کی ایک توجیہہ پیش کی کہ وہ نور کے ساتھ باہمی رضامندی سے گذشتہ تین سالوں سے تعلق میں تھے۔

وکلا کے حتمی دلائل

مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے حتمی دلائل میں اس قتل کو غیرت کے نام پر قتل کا رخ دینے کی کوشش بھی کی کہ ظاہر سے تعلق کی بنا پر نور کو ان کا کوئی قریبی بھی قتل کر سکتا ہے۔

لیکن مدعی کے وکلا نے ان کے دلائل کو فرانزک اور وڈیو شواہد کی روشنی میں جھٹلا دیا اور کہا کہ غیرت کے نام پر قتل اور ڈرگ پارٹی والی بات من گھڑت ہے۔

پولیس کی تفتیش اور بیان

اس کیس میں دوران ٹرائل تفتیشی کے متنازع بیان سامنے آنے پر جب میڈیا نے تنقید کی کہ پولیس کے بیان سے ملزم کو شک کا فائدہ ہو سکتا ہے تو آئی جی اسلام آباد کی جانب سے نور مقدم کیس کے شواہد کے حوالے باقاعدہ بیان جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ’کرائم سین سے ملنے والے یہ تمام شواہد ناقابل تردید ہیں اور ان کی فرنزاک لیبارٹری سے تصدیق ہو چکی ہے۔‘

آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ’یہ تمام ٹھوس شواہد ہیں جو ملزم کو کیفر کردار تک پہنچانے اور نور مقدم کے انصاف کے لیے کافی ہیں۔ تفتیشی ٹیم نور مقدم کے انصاف کے لیے کوشاں ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان