ٹرمپ کا سامراجی طرز عمل

ٹرمپ کا جارحانہ طرزِ عمل ظاہر کر رہا ہے کہ وہ ٹیرف اور سرمایہ کاری کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 22 جولائی 2025 کو واشنگٹن، ڈی سی میں وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں فلپائن کے صدر فرڈینینڈ مارکوس جونیئر سے ملاقات کے دوران۔ اس موقعے پر دیگر معاملات کے ساتھ ٹیرف پر بھی بات کی گئی (اے ایف پی)

امریکی صدور نے 19 ویں اور 20 ویں صدی میں سامراجی رویوں کا اظہار کیا ہے، لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ 21 ویں صدی میں بھی یہ سلسلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شکل میں جاری رہے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے رویے سے ایک بار پھر ظاہر کیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت سامراجی طرز عمل کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں۔

1945 کے بعد امریکی سربراہان ریاست نے عموماً ڈھکے چھپے لفظوں میں سامراجی جملے ادا کیے یا غیر محسوس طریقے سے سامراجی طرز عمل اختیار کیا کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے بعد معرض وجود میں آنے والے عالمی نظام میں یہ ضروری تھا کہ امریکہ اپنے مغربی اتحادیوں، جاپان اور دوسرے ہمدرد ممالک کو ساتھ ملا کر سوویت یونین کی اشتراکیت کا مقابلہ کرے۔

لیکن اب بظاہر لگ رہا ہے کہ ٹرمپ نے ان سارے آداب و اطوار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک کھلم کھلے سامراجی طرزِ عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس پر نہ صرف دنیا کے کئی ممالک کو تشویش ہے بلکہ ان کے حمایتی حلقوں میں بھی اس حوالے سے تحفظات ہیں۔

ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ برطانیہ میں نہ صرف یہ کہ برطانیہ کی ماحول دوست ٹیکنالوجی کو نشانہ بنانے کی کوشش کی بلکہ انہوں نے ملکی سیاسی معاملات پر بھی کھل کے تبصرے کیے، جو کئی ناقدین کے مطابق برطانیہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔

مثال کے طور پر انہوں نے تارکینِ وطن کے حوالے سے تبصرہ کر کے برطانیہ کی دائیں بازو کی قوتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔

دائیں بازو کی انتہا پسند قوتیں لندن کے مسلمان میئر صادق خان پر بھی دشنام طرازی کرتی ہیں اور ان پر الزام لگاتی ہیں کہ انہوں نے لندن کا نقشہ بدل کے رکھ دیا۔

ان کا الزام ہے کہ صادق خان کی وجہ سے برطانیہ کا دارالحکومت اب گوروں کی اکثریت کا شہر نہیں رہا۔ ٹرمپ بھی کھل کر صادق خان کو نشانے پر رکھتے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر کے اس بیان پر بھی سیخ پا نظر آئے، جس میں انہوں نے عندیہ دیا کہ لندن ممکنہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کر سکتا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ کیئر سٹارمر نے یہ اعلان لیبر پارٹی کے سابق لیڈر جیریمی کوربن کی بڑھتی ہوئی سیاسی شہرت اور اپنی کابینہ کے ارکان کے دباؤ کو پیش نظر رکھ کر دیا ہے۔

ٹرمپ نے فرانسیسی سربراہِ حکومت میکرون کے اس بیان کو بھی ہدفِ تنقید بنایا، جس میں انہوں نے اس بات کا اشارہ دیا تھا کہ پیرس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔

ناقدین کے مطابق سکاٹ لینڈ میں نجی دورے کے دوران صدر ٹرمپ کا طرزِ عمل کسی مغل شہنشاہ سے کم نہیں تھا۔

ایسا لگ رہا تھا کہ انہوں نے یورپی رہنماؤں کو اپنے دربار میں بلا لیا ہے، جو ٹیرف اور دوسرے مسائل پر دیا کی بھیک مانگ رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ پہلا موقع نہیں کہ ٹیرف کے مسئلے پر دنیا کے کئی رہنماؤں نے صدر ٹرمپ کے ملکی اور غیر ملکی درباروں میں حاضری دی ہو بلکہ اقتدار میں آنے کے کچھ ہی مہینوں کے بعد جب انہوں نے دھڑا دھڑ ٹیرف کے وار کیے تو بنگلہ دیش، ویت نام اور لاؤس سمیت کئی ممالک نے ان کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں شروع کیں۔

ان کی یہ کوششیں کسی حد تک کامیاب بھی ہوئیں اور کچھ ممالک سے امریکی حکومت کی اس حوالے سے ڈیلز بھی ہوئیں۔

تاہم چین اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ انڈیا اس حوالے سے سیخ پا رہے اور انہوں نے کوشش نہیں کی کہ وہ صدر ٹرمپ کے دربار میں حاضر ہو کر ان سے رحم کی بھیک مانگیں۔

چین نے امریکی اقدامات کا بھرپور جواب دیا جبکہ کچھ اور ممالک بھی ایسا ہی کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

تاہم ان جوابی اقدامات کے باوجود صدر ٹرمپ نے اب 92 ممالک پر ٹیرف لگا کر ایک بار پھر عالمی مالیاتی مارکیٹ اور سٹاک ایکسچینج میں کھلبلی مچا دی ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ صرف فرانس کی معیشت کا ایک شعبہ ان ٹیرف کی وجہ سے ممکنہ طور پر ایک ارب ڈالرز سے زیادہ کا نقصان اٹھا سکتا ہے۔

اس برس جنوری میں جب ایک برطانوی جریدے دی اکانومسٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ میں ’شاہی صدارت‘ کا دور دورہ ہے تو کئی لوگوں نے اس کا خاص نوٹس نہیں لیا تھا۔

لیکن اب ٹرمپ کا جارحانہ طرزِ عمل اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہ ٹیرف اور سرمایہ کاری کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور انہوں نے اس ہتھیار کو خارجہ پالیسی کا ایک اہم عنصر بنا لیا ہے۔

کئی مبصرین کے مطابق ماضی میں سامراجی ممالک عسکری طاقت کی بنیاد پر دوسرے ممالک کی پالیسیوں کو تبدیل کرتے تھے یا ان پر کافی حد تک اثر انداز ہوتے تھے۔

لیکن ٹرمپ وہی کام اب ٹیرف اور سرمایہ کاری کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے کر رہے ہیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد صدر ٹرمپ نے اس بات کا بھی اعلان کیا تھا کہ وہ پاناما کینال پر قبضہ کر سکتے ہیں اور گرین لینڈ کو امریکہ کے زیر اثر لانے کا بھی سوچ سکتے ہیں اور اس کے لیے تمام حربے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ غزہ کو امریکی کنٹرول میں دے دیا جائے تاکہ وہ اس میں ترقی اور تعمیر کا ایک نیا دور شروع کر سکیں۔ اس کے علاوہ ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ کینیڈا امریکی یونین کا حصہ بن جائے۔

دیکھنا یہ ہے کہ ان مقاصد کے لیے بھی کیا صدر ٹرمپ ٹیرف اور سرمایہ کاری کا پتہ کھیلیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ ایسا پتہ کھیلتے ہیں تو وہ کس حد تک کامیاب ہو گا۔

کئی حلقے یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ کیا ٹرمپ کا سامراجی طرزِ عمل ماضی کے سامراجی ذہنیت رکھنے والے صدور سے مختلف ہے۔

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ماضی کے امریکی صدور نے زیادہ تر لاطینی امریکہ کے ممالک میں بلاواسطہ طور پر یا بالواسطہ طور پر عسکری اور غیر عسکری مداخلتیں کی۔

اس کے علاوہ امریکی حکومتوں نے دوسرے ترقی پذیر ممالک میں بھی فوجی حکومتیں قائم کروائیں اور جمہوریت کا تختہ الٹوایا۔

ماضی کے صدور کی زیادہ تر مداخلت ترقی پذیر ممالک میں تھی یا ان کا سامراجی طرزِ عمل زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کی طرف تھا۔

تاہم صدر ٹرمپ کا سامراجی طرزِ عمل نہ صرف امریکہ مخالف ممالک کی طرف ہے بلکہ یہ امریکہ کے اتحادیوں کی طرف بھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس سامراجی طرز عمل کا کیا نتیجہ نکلے گا؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ