بحریہ ٹاؤن کی تین جائیدادیں دو ارب روپے میں نیلام: نیب

نیب کے مطابق تین جائیدادیں بولی کی شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے فروخت نہ ہو سکیں اور ان کے لیے جلد دوبارہ نیلامی کا اعلان کیا جائے گا۔

پاکستان میں احتساب کے ادارے (نیب) نے جمعرات کو بتایا کہ ملک ریاض اور ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن سے منسلک تین جائیدادیں دو ارب 26 کروڑ 55 لاکھ روپے میں نیلام کی گئی ہیں۔

نیب (راول پنڈی/اسلام آباد) نے ایک اعلامیے میں بتایا کہ اس نیلامی کا مقصد 2019 میں عدالت سے منظور شدہ پلی بارگین کے تحت واجب الادا رقم کی وصولی ہے۔

اعلامیے کے مطابق ربیش مارکی کامیابی سے 50 کروڑ 80 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی۔ یہ قیمت مقررہ قیمت سے دو کروڑ روپے زائد تھی۔ ادائیگی اور منتقلی کا عمل جاری ہے۔

اسی طرح کارپوریٹ آفس-I کے لیے 87 کروڑ 60 لاکھ روپے کی مشروط پیشکشیں موصول ہوئیں۔ حتمی منظوری نیب کی مجاز اتھارٹی سے ہونا باقی ہے۔

کارپوریٹ آفس-II کے لیے 88 کروڑ 15 لاکھ روپے کی مشروط پیشکشیں آئیں، جس کی منظوری بھی مجاز اتھارٹی سے زیر التوا ہے۔

اعلامیے میں مزید بتایا گیا کہ تین جائیدادیں بولی کی شرائط پوری نہ ہونے کی وجہ سے فروخت نہ ہو سکیں۔ ان کے لیے جلد دوبارہ نیلامی کا اعلان کیا جائے گا۔

نیب کا کہنا ہے کہ وہ عوامی فنڈز کی شفاف بازیابی اور احتسابی قوانین کے سخت نفاذ کے لیے پرعزم ہے۔

نیب حکام کا اعلامیے میں کہنا ہے کہ ’یہ عمل شفاف طریقے سے مکمل کیا گیا اور جلد باقی جائیدادوں کی نیلامی کا شیڈول بھی جاری کیا جائے گا تاکہ پلی بارگین کے تحت تمام واجبات کی وصولی ممکن بنائی جا سکے۔‘

نیب کے اعلامیے میں جائیدادیں خریدنے والوں کی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

بحریہ ٹاؤن نے بدھ کو ان اثاثوں کی نیلامی کو روکنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی، جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فاروق نائیک کی جانب سے جمع کروائی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور اپیل پر فیصلہ ہونے تک جمعرات (سات اگست) کو ہونے والی اس نیلامی کا عمل معطل کیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پانچ اگست کو جائیدادوں کی نیلامی کے خلاف بحریہ ٹاؤن کی درخواست مسترد کرتے ہوئے نیب کو نیلامی کی اجازت دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس وقت دبئی میں مقیم ملک ریاض پاکستان کی امیر ترین اور بااثر کاروباری شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔

نیب کے ایک بیان کے مطابق آج نیلام کیے جانے والے اثاثوں میں راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن فیز ٹو میں واقع پلاٹ نمبر ڈی سیون پر قائم کارپوریٹ آفس، پلاٹ نمبر ای سیون پر دوسرا کارپوریٹ آفس، روبائش مارکی اور لان، بحریہ گارڈن سٹی گالف کورس کے قریب واقع جائیدادیں اور بحریہ ٹاؤن اسلام آباد کی املاک شامل تھیں۔

بحریہ ٹاؤن کے لاکھوں رہائشی عدالتی فیصلے کے بعد کشکمش میں ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے رہائشی سبحان جنجوعہ نے نیلامی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’ایک عام شہری کے لیے بھی باعث تشویش‘ قرار دیا۔

’اگر کسی کی جائیدادیں اس انداز سے نیلام کی جائیں تو یہ زیادتی ہے، چاہے وہ پھر ملک ریاض ہو یا کوئی عام شہری۔‘

سبحان کا کہنا تھا کہ ملک ریاض پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالا جا رہا تھا کہ وہ ’عمران خان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں وعدہ معاف گواہ بنیں، اگر وہ بیان دے دیتے تو شاید بحریہ ٹاؤن آج بھی ویسا ہی ترقی یافتہ ہوتا۔‘

نیلامی کے اثرات سے متعلق سبحان نے بتایا کہ اس سے ’لاکھوں ڈیلرز، کنسٹرکشن ورکرز اور سرمایہ کار متاثر ہوئے۔‘

ملک ریاض نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو بحریہ ٹاؤن مکمل طور پر بند ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا ’ہماری رقوم کی روانی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے، روزمرہ سروسز فراہم کرنا ناممکن ہو گیا ہے۔

’اپنے دسیوں ہزاروں سٹاف کی تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں اور حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ ہم پاکستان بھر میں بحریہ ٹاؤن کی تمام سرگرامیاں مکمل طور پر بند کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ُ

ملک ریاض نے حکومت اور متعلقہ اداروں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ’سنجیدہ مکالمے اور باوقار حل کی طرف واپسی‘ کا موقع دیا جائے تاکہ معاملہ کسی انجام تک پہنچ سکے۔

ساتھ ہی انہوں نے ثالثی کے عمل میں شریک ہونے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی بھی غیرجانب دار ثالثی میں شامل ہو کر اس فیصلے کو 100 فیصد قبول کریں گے اور اگر فیصلے کے مطابق کوئی مالی ادائیگی کرنی پڑی تو وہ رقم ادا کی جائے گی۔

بدھ کو رات گئے وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے ایک بیان میں کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو ایک ارب 12 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کے ثبوت ملے ہیں۔

عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ ’سفاری ہسپتال کو فرنٹ آفس کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، جہاں غیر قانونی ریکارڈ اور کیش رکھا گیا اور ایمبولینس کو ان دستاویزات اور رقوم کی منتقلی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کرپشن اور ہنڈی حوالہ کا میگا سکینڈل ہے۔

’ایف آئی اے کے چھاپے کے دوران بحریہ ٹاؤن کے افسران نے ریکارڈ جلانے کی کوشش کی، لیکن ایف آئی اے نے بیشتر ریکارڈ قبضے میں لے لیا۔

’بحریہ ٹاؤن کے سی ایف او اور ڈائریکٹر فنانس کے ہنڈی حوالہ نیٹ ورک سے رابطے کے شواہد موجود ہیں، جس کے ذریعے اربوں روپے پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے باہر بھیجے گئے۔‘

عطا تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ یہ ’تحقیقات کا آغاز‘ ہے اور اس میں ’مزید انکشافات متوقع‘ ہیں۔ انہوں نے مفرور افراد کو قانون کے سامنے پیش ہونے کا مشورہ بھی دیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان