نور مقدم کیس: ’غیرت کے نام پہ قتل کی بات من گھڑت ہے‘

پیر کے روز ہونے والی سماعت میں تمام ملزمان کے وکلا کے حتمی دلائل مکمل ہو گئے ہیں جبکہ استغاثہ اپنے دلائل منگل کے روز آئندہ سماعت پر مکمل کرے گی جس کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ ہونے کا امکان ہے۔

نور مقدم (تصویر بشکریہ دوست احباب)

اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں پیر کو نور مقدم قتل کیس کی سماعت میں سابق سفیر شوکت مقدم کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ مرکزی ملزم کی جانب سے قتل کو غیرت کا رخ دینے کی کوشش بھی کی گئی جو کہ ایک من گھڑت بات ہے۔

پیر کے روز ہونے والی سماعت میں تمام ملزمان کے وکلا کے حتمی دلائل مکمل ہو گئے ہیں جبکہ استغاثہ اپنے دلائل منگل کے روز آئندہ سماعت پر مکمل کرے گی جس کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ ہونے کا امکان ہے۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کی سماعت کی۔ واضح رہے یہ کیس اب تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن ختم ہونے پر ٹرائل کورٹ کے جج نے مزید ایک ماہ کی مہلت طلب کی تھی جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے منظور کر لیا تھا۔

مدعی مقدمہ شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور نے حتمی دلائل میں کہا کہ 20 جولائی کی ایف آئی آر میں ملزم ظاہر جعفر کو نامزد کیا گیا تھا۔ 24 جولائی کو مرکزی ملزم ظاہرجعفر نے سپلمنٹری سٹیٹمنٹ میں کچھ اعتراف کیے۔ مدعی نے ذاکر جعفر، عصمت آدم جی و دیگر ملزمان کو سپلمنٹری سٹیٹ کے بعد نامزد کیا۔

مرکزی ملزم سمیت کسی ملزم نے چالان یا سپلمنٹری چلان کو چیلنج نہیں کیا۔  وکیل شاہ خاور نے 19 گواہوں کی تفصیلات عدالت کے سامنے رکھیں اور ظاہر جعفر کے 342 کے بیان میں سوال نمبر 22 سے متعلق عدالت کو بتایا۔

شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ فوٹو گرامیٹری ٹیسٹ بھی مرکزی ملزم کا مثبت ہے۔

انہوں نے بتایا: ’نور مقدم جب اس گھر میں داخل ہوتی ہیں تو قتل تک تقریبا 38 گھنٹے بنتے ہیں۔ ان کے پاس صرف بیگ تھا لیکن مرکزی ملزم جب ائیرپورٹ جانے لگا تو استعمال کی چیزیں واضع ہیں۔ ائیر پورٹ سے واپسی سے لے کر قتل تک وہ اغوا رکھی گئیں۔‘

وکیل نے ظاہر جعفر کے بیان کے جواب میں مزید کہا: ’کوئی ڈرگ پارٹی نہیں تھی نا ہی سی سی ٹی وی میں نظر آرہی ہے۔ یہ سٹوری دفاعی وکلا نے گھڑی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ 19 گواہوں کی جرح میں کبھی بھی غیرت کے نام پر قتل کی بات کہیں نہیں آئی۔ جس جگہ پر قتل ہوا اس کا انکار نہیں کیا گیا بلکہ ظاہر جعفر نے خود مانا ہے قتل اس کے گھر میں ہوا بلکہ اس کے بیڈ روم میں ہوا۔

شاہ خاور نے کہا کہ شریک ملزمان بھی کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے واقع ہونے کے بعد ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ 20جولائی کو سی سی ٹی وی میں واضع ہے کہ نور مقدم کو چوکیدار افتخار روک رہا ہے۔ نور مقدم نے چھلانگ لگائی اور بھاگنے کی کوشش کی تو ظاہر جعفر کے کہنے پر افتخار نے اسے روکا۔ افتخار کے روکنے کے بعد ظاہر جعفر ٹیرس سے کودا اور نور مقدم کو چوکیدار کے کیپبن میں بند کردیا۔

شاہ خاور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جان محمد اور جمیل نے معلومات ہونے کے باوجود پولیس کو آگاہ نہیں کیا۔

شریک ملزم طاہر ظہور کے وکیل نے ایک میسج دیکھایا ہے کہ طاہر ظہور اور ذاکر جعفر رابطے میں تھے۔ ان کا کہنا تھا: ’جب ظاہر جعفر کے والدین کراچی میں تھے تو انہوں نے کیسے کہا کہ ملزم کے پاس اسلحہ نہیں ہے۔'

شاہ خاور نے کہا: ’ملزم امجد کا پمز میں روڈ ٹریفک ایکسڈنٹ لکھا گیا۔ زخمی ہونے والے ملازم سے متعلق تھراپی ورک نے پولیس کو اطلاع نہیں دی۔

ظاہر جعفر کے وکیل نے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی ایک رپورٹ دی ہے۔ ڈرگ زیادہ استعمال سے فلیوڈ زیادہ ہونے کی بات درست نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مادہ صدمے کے باعث بھی بنتا ہے ایک انسان کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا تو اس وقت وہ گہرے صدمے میں ہوگا جس کے باعث جسم میں مادے کی تصدیق ہوئی۔‘

عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔ کل وکیل شاہ خاور اپنے دلائل مکمل کر لیں گے۔

سماعت میں مزید کیا ہوا؟

تھراپی ورکس کے ملازمین کے وکیل شہزاد قریشی نے حتمی دلائل میں عدالت میں موقف اپنایا کہ ڈی وی آر کھلنے کے بعد ثابت ہوگیا کہ میرے ملزمان نے مرکزی ملزم کو وہاں سے گرفتار کیا۔

انہوں نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ میری استدعا ہے کہ یہ پانچوں ملزمان بےگناہ ہیں ان کو بری کیا جائے۔

اسی دوران وکیل اسد جمال نے عدالت سے کہا کہ ملزمان کو کمرہ عدالت میں بلا لیں۔ جج نے استفسار کیا کہ وہ کیوں ملزمان کو عدالت میں لانا چاہتے ہیں تو وکیل نے بتایا کہ ملزم ذاکر جعفر سماعت سننا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد انہیں کمرہ عدالت پیش کر دیا گیا۔

وکیل اکرم قریشی نے تھراپی ورکس کے مالک کی جانب سے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تھراپی ورکس کے خلاف تو کسی نے کوئی شہادت ہی نہیں دی۔ تھراپی ورکس کا رابطہ ہونا کوئی جرم تو نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنا ہو گا لہذا شک کا فائدہ تھراپی ورکس کو دیا جائے۔

وکیل اکرم قریشی نے استدعا کی اور دلائل مکمل کر لیے۔

اس کے بعد ظاہر جعفر کی والدہ ملزمہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا: ’ہم پر الزام ہے کہ ہم نے قتل کی اطلاع پولیس کو نہیں دی۔ ہم پر ثبوتوں کو جائے وقوعہ سے ہٹانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرائم سین انچارج یہ کہہ سکتا تھا کہ ثبوتوں کو مٹانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ایسا کوئی بیان نہیں دیا گیا۔ اگر واقع میں ملوث ہوتے تو پہلی فلائٹ سے کراچی سے اسلام آباد کیوں آتے۔ عصمت آدم جی اور ذاکر جعفر کے خلاف کوئی ثبوت نہیں اور نہ کوئی دونوں پر مقدمہ بنتا ہے۔‘

کیس کا سیاق و سباق

واضح رہے کہ 20 جولائی کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ملزم کو موقع سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔

ملزم ظاہر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں۔ پولیس نے 24 جولائی کو جرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔

ملزم کی والدہ کی ضمانت ہو چکی ہے جبکہ والد اور دیگر ملوث ملزمان اڈیالہ جیل میں ہیں۔

کیس میں اب تک کے تمام گواہوں کے بیانات، جرح اور 342 بیان کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان