نور مقدم کیس میں پولیس نے کہانی گھڑی، میڈیا نے ساتھ دیا: وکیل

اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عطا ربانی کی عدالت میں بدھ کو حتمی دلائل دیتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم کا کہنا تھا کہ پوری اسلام باد پولیس اس کیس کے پیچھے لگی ہوئی تھی۔

نور مقدم قتل کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر   20 اکتوبر 2021 کو پیشی کے بعد کمرہ عدالت سے باہر لائے جا رہے ہیں (اے ایف پی)

سابق پاکستانی سفارت کار کی صاحبزادی نور مقدم قتل مقدمے کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل نے اسلام آباد پولیس پر الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ واقعے سے متعلق ایک کہانی گھڑی گئی جس میں میڈیا نے بھی ساتھ دیا ہے۔

اسلام آباد کے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد عطا ربانی کی عدالت میں بدھ کو حتمی دلائل دیتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم کا کہنا تھا کہ پوری اسلام باد پولیس اس کیس کے پیچھے لگی ہوئی تھی۔

استغاثہ کے مقدمے میں ’جھول‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن کے مطابق مقتولہ نے 18 جولائی کو بھاگنے کی کوشش کی جبکہ ان کے والد کا کہنا ہے کہ وہ 19 جولائی کو گھر آئے تو نور مقدم موجود نہیں تھیں۔

وکیل سکندر ذوالقرنین سلیم کا کہنا تھا کہ ’اس مقدمے میں پولیس میڈیا کو زیادہ وضاحت جاری کرتی ہے، جبکہ وکلا بریفنگز دیتے ہیں اور میڈیا حقائق کے ساتھ کھیلتا رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ پوسٹ مارٹم میں تاخیر کی گئی جس کا مقصد ’ایک کہانی‘ ترتیب دینا تھا۔

’اگر ان کو اور وقت مل جاتا تو شاید یہ ایک ایسی شہادت بھی لے آتے کہ یہ قتل کیسے ہوا۔‘

سکندر ذوالقرنین سلیم نے سوال کیا کہ تفتیشی افسر کے مطابق نور مقدم باہر آئیں اور ظاہر جعفر نے انہیں بند کر دیا، تو کیا کسی نے اس کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ دیکھا؟

انہوں نے مزید کہا: ’ہو سکتا ہے کہ ظاہر جعفر نے نور مقدم کو کسی سے بچانے کے لیے بند کیا ہو۔‘

’لاش کے ملنے پر اسے فوراً مردہ خانے پہنچایا جاتا ہے، جبکہ نور مقدم کی لاش کو ایمرجنسی لے جایا گیا اور پوسٹ مارٹم میں تاخیر کی گئی۔‘

’تاخیر کی وجہ فون کال کرنا اور کہانی بنانا تھا اور اس مقصد کے لیے اگلے دن کا انتظار کیا گیا۔‘

وکیل صفائی نے مزید کہا کہ پولیس نے جائے وقوعہ پر بعض لوگوں کی موجودگی کو بھی چھپایا، جس کا اقرار پولیس کا ذمہ دار افسر بھی کرنے سے کترا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جائے وقوعہ پر کون سا ایس ایچ او موجود تھا نہیں بتایا جا رہا، اور انہیں کس نے کس نمبر سے کال کی تھی؟

دلائل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مقتولہ کے والد وہاں پہلے سے موجود تھے جبکہ لڑکی کے اکلوتے بھائی کو پوری تفتیش میں شامل نہیں کیا گیا۔

’ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی غیرت کا معاملہ ہو، ہو سکتا ہے کہ بھائی ان کی بنائی ہوئی کہانی کا ساتھ نہ دینا چاہتا ہو۔‘

ذوالقرنین سلیم نے کہا کہ مدعی نے پولیس کو اطلاع نہیں دی جب وہ یہ معلوم نہیں کر پائے کہ مقتولہ کس کے ساتھ لاہور جا رہی ہیں۔

مدعی نے اپنے بیان میں کہاکہ انہوں نے ظاہر جعفر کو کال نہیں کی اور نہ اس سے پوچھا۔

مرکزی ملزم کے وکیل نے مزید کہا کہ اس کے بعد سہارا لیا گیا کہ ظاہرجعفر کو واٹس ایپ کے ذریعے کال کی گئی لیکن ظاہر جعفر کے موبائل ڈیٹا کا فرانزک کیوں نہیں کروایا گیا؟

وکیل کا کہنا تھا کہ ان کی جرح پر میڈیا نے ان پر تنقید کی کہ انہوں نے تفتیشی افسر سے ہاں یا ناں میں جوابات طلب کیے۔

انہوں نے کہا کہ استغاثہ کا پورا کیس واقعاتی شہادتوں پر مشتمل ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب نور مقدم قتل کے مقدمے میں استغاثہ نے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گھر سے متعلقہ ہر فرد کا نام ملزمان کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

 

مقدمے کے ملزمان میں ظاہر جعفر کے علاوہ ان کے والدین، تین ملازمین اور تھیراپی ورکس کے سربراہ کے علاوہ چھ اہلکار شامل ہیں۔

ظاہر جعفر کے گھر کے زیر حراست تین ملازمین کے وکیل سجاد احمد بھٹی نے اپنے دلائل میں کہا کہ ملزمان جمیل، جان محمد اور افتخار کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 23 جولائی تک مذکورہ ملازمین ملزمان کی فہرست میں شامل نہیں تھے اور مرکزی ملزم ظاہر جعفر نے بھی ان کا ذکر نہیں کیا۔

’پھر 24 جولائی کو نئی درخواست دی جاتی ہے جس کے ذریعے جمیل اور افتخار کے نام بحیثیت ملزمان شامل کیے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اس گھر سے جو بھی متعلقہ بندہ تھا اس کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے مقدمے میں 19 گواہان پیش کیے، جن میں سے اکثر کے بیانات میں تضادات پائے جاتے ہیں۔

وکیل سجاد احمد بھٹی نے مزید کہا کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹر سارہ نے عدالت کو بتایا تھا کہ پولیس اہلکار اقصی رانی کا نام بعد میں ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے گھر کے مالی، چوکیدار اور خانسامہ بےگناہ ہیں اور عدالت ان تینوں ملزمان کو بری کر دے۔

وکیل سجاف بھٹی نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ جائے وقوعہ کا نقشہ تھانے میں بنایا گیا اور نقشہ نویس نے گھرکے تین ملازمین کی لوکیشن کا ذکر بھی نقشے میں نہیں کیا۔ 

انہوں نے کہا کہ ایک گواہ کے مطابق آلہ قتل اور دیگر سامان موقع سے برآمد کیا، جبکہ ان کے موکلین پر شہادتیں چھپانے کا الزام لگایا گیا ہے۔

’اگر آلہ قتل اور دوسرا سامان جائے وقوعہ سے برآمد کیا گیا تو شہادت مٹانے کا الزام تو جھوٹا ہوا۔‘

گواہوں کے بیانات میں تضادات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک گواہ اطلاع ملنے پر جائے وقوعہ پہنچے تو وہاں پہلے سے کچھ لوگوں کو موجود پایا۔ 

’اسی طرح ایک گواہ نے لاش کو جائے وقوعہ سے پمز ہسپتال اور دوسرے نے اسی لاش کو پولی کلینک منتقل کرنے کا ذکر کیا۔‘

انہوں نے کہا کہ مدعی مقدمہ شوکت مقدم کے مطابق انہوں نے 20 جولائی کو سی سی ٹی وی ویڈیو دیکھ لی اور پھر بھی تین ملازمین کو بعد میں نامزد کیوں کیا گیا؟ 

انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر نے کالے رنگ کے کتے کا بھی ذکر کیا، جو نور کے اس گھر میں آنے پر کوئی ردعمل نہیں دیتا۔ 

وکیل نے کہا کہ ان کے موکلین اس گھر میں مالزمین تھے جبکہ نور مقدم اس خاندان کا حصہ تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان