مسلمان ہیڈ ماسٹر کے تبادلے کے لیے پانی میں زہر ملا دیا: پولیس

پولیس سپرنٹنڈنٹ بھیم شنکر ایس گولیڈ بتایا کہ ہولی کَتی گاؤں میں سکول کے پانی کے ٹینک میں زہر ملایا گیا تاکہ مسلمان ہیڈ ماسٹر کا تبادلہ کرایا جا سکے۔

انڈیا کی ریاست راجستھان کے کلیانپور گاؤں میں 8 اپریل 2025 کو ایک سرکاری پرائمری سکول کے اندر بچے پانی پی رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پولیس کے مطابق جنوبی انڈیا کی ریاست کرناٹک کے ایک سرکاری سکول میں متعدد بچے زہریلا پانی پینے کے بعد مبینہ طور پر بیمار ہو گئے ہیں۔

حکام نے اس واقعے کے سلسلے میں تین افراد کو گرفتار کر لیا جن میں دائیں بازو کی ہندو تنظیم شری رام سینا کے مقامی رہنما بھی شامل ہیں جو ریاست کے ضلع بیلا گاوی سے تعلق رکھتے ہیں۔

بیلا گاوی کے پولیس سپرنٹنڈنٹ بھیم شنکر ایس گولیڈ بتایا کہ ہولی کَتی گاؤں میں سکول کے پانی کے ٹینک میں زہر ملایا گیا تاکہ مسلمان ہیڈ ماسٹر کا تبادلہ کرایا جا سکے۔

اخبار دی ہندو کے مطابق پولیس سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ شری رام سینا کے رہنما ساگر پٹیل اور ایک اور مبینہ ملزم ناگن گوڑا پٹیل نے مقامی رہائشی کرشن مدر کو ان کے بین المذاہب تعلق کی بنیاد پر بلیک میل کیا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ سکول کے پانی کی سپلائی میں زہر ملائیں۔

کرشن مدر نے مبینہ طور پر تین قسم کی کیڑے مار ادویات خریدیں، انہیں جوس کے پیکٹ میں ڈالا اور ایک کم عمر طالب علم کو راضی کیا کہ وہ اس محلول کو پانی کے ٹینک میں ڈال دے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق پولیس افسر نے کہا کہ ’ہم نے اس کیس کو حل کرنے کے لیے سائنسی شواہد اور طلبہ سے بات چیت کا سہارا لیا۔ یہ ایک منصوبہ بند اور انتہائی افسوسناک کوشش تھی جس کے پیچھے مذہب کی بنیاد پر نفرت کارفرما تھی۔‘

پولیس سپرنٹنڈنٹ نے ہفتے کو صحافیوں کو بتایا کہ شری رام سینا کے لوگوں نے زہر ملانے کا الزام ہیڈ ماسٹر سلیمان گوری نائک پر ڈالنے کی سازش کی۔

حکام کے مطابق ان کا مقصد مذہب کو بنیاد بنا کر کشیدگی پیدا کرنا تھا تاکہ ایک ایسا ماحول بنایا جائے جس سے ہیڈ ماسٹر کی ساکھ متاثر ہو اور ان کا تبادلہ ہو جائے۔

دی انڈپینڈنٹ نے اس معاملے پر تبصرے کے لیے مذکورہ ہندو تنظیم سے رابطہ کیا۔

کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیہ نے اسے ’مذہبی انتہاپسندی اور نفرت پر مبنی سنگین جرم‘ قرار دیا۔ انہوں نے اتوار کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ ’یہ واقعہ 15 دن پہلے پیش آیا جس میں کئی بچے بیمار ہو گئے۔ خوش قسمتی سے کوئی موت نہیں ہوئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹائمز آف انڈیا کے مطابق زہریلا پانی پینے کے بعد 11 بچے بیمار ہو گئے تاہم بعد میں ٹھیک ہو گئے۔

وزیر اعلیٰ نے مزید کہا: ’یہ واقعہ جس میں ننھے بچوں کا قتل عام ہو سکتا تھا، اس بات کا ثبوت ہے کہ مذہبی انتہاپسندی اور مذہب کی بنیاد پر نفرت کسی بھی سنگین جرم تک لے جا سکتی ہے۔ میں اس وقت بھی اس پر یقین نہیں کر پا رہا۔‘

وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی بی جے پی جماعت پر بھی سخت تنقید کی اور اس کے رہنماؤں پر الزام لگایا کہ وہ معاشرتی تقسیم پیدا کرنے کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔

سدارامیہ نے کہا کہ ’بی جے پی کے وہ رہنما جو مذہب کے نام پر معاشرے میں نفرت پھیلاتے ہیں اور اپنی سیاست چمکاتے ہیں انہیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔‘

ہر قسم کی انتہاپسندی کے بارے میں ہوشیار رہنے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے نفرت انگیز تقاریر اور مذہب کے نام پر فسادات کی روک تھام کے لیے خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی ہے اور ایسے افراد کے خلاف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر ممکن کارروائی کر رہے ہیں۔

’ہماری کوششیں اسی وقت کامیاب ہوں گی جب عوام بھی ایسی طاقتوں کے خلاف آواز اٹھائیں، ان کا مقابلہ کریں اور شکایات درج کروائیں۔ بچوں کے قتل عام کی سازش ناکام بنانے پر میں پولیس اہلکاروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘

واقعے کے بعد کرناٹک میں مسلمان تنظیموں نے شری رام سینا پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے منگل کو بیلاگاوی کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے توسط سے حکومت کو مطالبے پر مبنی یادداشت پیش کی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا