انڈیا: ’آپریشن سندور‘ سے متعلق پوسٹ پر مسلمان پروفیسر گرفتار

اشوکا یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمودآباد کو اتوار کے روز دہلی میں ہریانہ پولیس نے گرفتار کیا۔

مسلمان پروفیسر علی خان کی گرفتاری پر علمی حلقوں میں شدید مذمت کی جا رہی ہے اور ناقدین اسے ’ہراسانی اور سنسرشپ‘ کی کوشش قرار دے رہے ہیں (علی خان محمودآباد انسٹاگرام)

انڈیا کی ایک ممتاز نجی یونیورسٹی کے پروفیسر کو پاکستان میں فوجی آپریشن سے متعلق سوشل میڈیا پوسٹس پر گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اشوکا یونیورسٹی میں شعبہ سیاسیات کے سربراہ علی خان محمودآباد کو اتوار کے روز دہلی میں ہریانہ پولیس نے گرفتار کیا۔ یہ گرفتاری ہریانہ سٹیٹ کمیشن فار ویمن کی شکایت پر عمل میں آئی۔

مسلمان پروفیسر کی گرفتاری پر علمی حلقوں میں شدید مذمت کی جا رہی ہے اور ناقدین اسے ’ہراسانی اور سنسرشپ‘ کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

اس تنازع کی جڑ پروفیسر علی خان کی وہ سوشل میڈیا پوسٹس ہیں جو انہوں نے آٹھ اور 11 مئی کو کی تھیں۔

یہ پوسٹس انڈیا کی جانب سے ’آپریشن سندور‘ کے آغاز کے چند دن بعد کی گئیں جس میں انڈین فوج نے پاکستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں نو مقامات کو نشانہ بنایا۔ یہ کارروائی 22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے حملے کے جواب میں کی گئی تھی جس میں 26 سیاح مارے گئے تھے۔

اپنی پوسٹس میں پروفیسر علی خان محمودآباد نے آپریشن سندور کے حوالے سے بریفنگ میں مسلمان خواتین افسران کو آگے لانے کے ’دکھاوے‘ کی کوشش  پر سوال اٹھائے اور انڈیا میں مسلمانوں پر ہجوم کے ہاتھوں تشدد کی وارداتوں پر بھی توجہ دلائی۔

اگرچہ انہوں نے خواتین افسران کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویومیکا سنگھ کی موجودگی کو سراہا لیکن کہا کہ اگر خواتین کی حالت بہتر بنانے کے لیے مسلح افواج اور دیگر عوامی اداروں میں حقیقی اصلاحات نہ کی گئیں تو صرف ایسے ’مناظر‘ دکھانا ’منافقت‘ ہوگی۔

ایک اور پوسٹ میں انہوں نے انڈیا کی عسکری حکمت عملی کو سراہا مگر جنگی بیانیے پر تنقید کی۔

گرفتاری سے قبل جاری کیے گئے ایک بیان میں پروفیسر علی خان نے کہا کہ ان کی پوسٹس کو ’غلط سمجھا گیا‘ اور یہ کارروائی ’سنسرشپ اور ہراسانی کی ایک نئی شکل ہے جو وہاں بھی مسائل گھڑتی ہے جہاں کوئی مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروفیسر نے کہا کہ انہوں نے ’امن و ہم آہنگی کو فروغ دینے اور انڈین مسلح افواج کی جرات مندانہ کارروائی کو سراہنے کے لیے اپنے بنیادی حق اظہار رائے کا استعمال کیا۔‘

ان کے بقول: ’میری تمام تر باتیں شہریوں اور سپاہیوں دونوں کی جانوں کی حفاظت سے متعلق تھیں اور میری کسی بات میں خواتین مخالف کوئی عنصر نہیں ہے۔‘

یہ بیان انہیں ہریانہ خواتین کمیشن کی جانب سے بلاوا ملنے کے بعد جاری کیا گیا۔

کمیشن نے ان کے بیانات کو خواتین افسران کے وقار کو مجروح کرنے اور قومی فوجی کارروائیوں کو بدنام کرنے کے مترادف قرار دیا۔

کمیشن نے ان پر مسلح افواج میں خدمات دینے والی خواتین کی توہین، ’نسل کشی‘ اور’غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنانا‘ جیسے الفاظ کے غلط استعمال اور فرقہ وارانہ بدامنی کو ہوا دینے جیسے الزامات لگائے۔

اساتذہ، پروفیسرز، جامعات اور سرکاری افسران سمیت 1200 افراد کی جانب سے دستخط کیے گئے ایک کھلے خط میں پروفیسر کے حق میں آواز بلند کی اور کمیشن سے معافی کا مطالبہ کیا کہ انہوں نے جان بوجھ کر علی خان کے خلاف ’بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی بہتان تراشی‘ کی۔

خط میں کہا گیا: ’ان کے اصل بیانات کا سادہ سا مطالعہ بتاتا ہے کہ پروفیسر علی خان نے افواج کی سٹریٹجک پالیسی کی تعریف کی اور اس بات کا تجزیہ کیا کہ پاکستان کے غیر ریاستی عناصر اور فوج میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔‘

خط میں مزید کہا گیا: ’انہوں نے انڈین دائیں بازو کی جانب سے کرنل صوفیہ قریشی کی حمایت کو بھی سراہا اور انہیں دعوت دی کہ وہ اسی بلند آواز سے انڈیا کے مسلمانوں پر ہجوم کے ہاتھوں ہونے والے تشدد اور مکانات کی بلڈوزنگ کی مخالفت بھی کریں۔‘

اتوار کو اشوکا یونیورسٹی کی اکیڈمک فریڈم کمیٹی نے ایک داخلی ای میل میں گرفتاری کو ’کمزور بنیادوں پر دی گئی غیر متناسب سزا‘ قرار دیا اور ’علمی آزادی پر بنیادی حملہ‘ کہہ کر اس کی مذمت کی۔

پروفیسر علی خان محمودآباد 2016 سے اشوکا یونیورسٹی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

وہ مذہبی شناخت، سیاسی ثقافت اور جنوبی ایشیا و مشرق وسطیٰ میں جمہوریت پر اپنے علمی کام کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ کیمبرج سے تعلیم یافتہ ہیں اور شمالی انڈیا میں مسلم شناخت پر پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔

یہ واقعہ اشوکا یونیورسٹی اور نریندر مودی حکومت کے درمیان تعلیمی آزادی اور مبینہ سیاسی اختلافات کے تناظر میں جاری کشیدگی کا تازہ ترین باب ہے۔

یاد رہے کہ 2021 میں معروف سکالرز پرتاپ بھانو مہتا اور اروند سبرا منین کے مستعفی ہونے کے بعد یونیورسٹی میں اعلیٰ اساتذہ کے استعفوں کی ایک لہر آئی تھی۔

مہتا کو یونیورسٹی بانیوں کی جانب سے ’سیاسی بوجھ‘ قرار دیے جانے کے بعد ان کے استعفے نے طلبہ احتجاج اور عالمی مذمت کو جنم دیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا