نئی دہلی نے ہفتے کو اعلان کیا کہ انڈین زیر انتظام کشمیر میں سابق فوجیوں کو سکیورٹی گارڈز کے طور پر دوبارہ تعینات کیا جائے گا۔
گذشتہ ماہ انڈین زیر انتظام کشمیر میں مسلح افراد کے حملے کے بعد شروع ہونے والی اس تشدد میں تقریباً 70 افراد جان سے گئے، نئی دہلی نے اس حملے کی پشت پناہی کا الزام اسلام آباد پر لگایا، جس الزام کی پاکستان نے تردید کی۔
ایک سرکاری پریس ریلیز کے مطابق انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں حکومت نے ’یونین ٹیریٹری کے اہم انفراسٹرکچر کی حفاظت کے لیے ’سابق فوجیوں (ای ایس ایم) کو متحرک کرنے کی تجویز‘ کی منظوری دی۔
اس میں کہا گیا کہ تقریباً 4,000 سابق فوجیوں کی ’شناخت‘ غیر جنگی رضاکار کے طور پر ہوئی ہے، جن میں سے 435 کے پاس لائسنس یافتہ ذاتی ہتھیار موجود ہیں۔
حکومت نے مزید کہا کہ اس سے ’مقامی سکیورٹی صورت حال کا مؤثر جواب دینے کی صلاحیت میں نمایاں اضافہ‘ ہوگا۔
سابق فوجی ’ ایک جگہ متعین محافظ ‘ کے کردار میں کام کریں گے، جس سے ’ان کے مقام تعیناتی پر جرائم کی روک تھام‘ ہو گی اور وہ مقامی ہم آہنگی پر توجہ مرکوز کریں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا کے پاس پہلے ہی متنازع علاقے میں تقریباً پانچ لاکھ فوجی مستقل طور پر تعینات ہیں، جو جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ممالک کے درمیان متعدد جنگوں کا مرکز رہا ہے۔ دونوں ممالک اس منقسم علاقے کے مختلف حصوں پر کنٹرول رکھتے ہیں۔
انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں 1989 سے مسلح جدوجہد جاری ہے، اور وہاں کے عوام آزادی یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہاں ہیں۔
لڑائی میں کمی 2019 کے بعد آئی، جب انڈیا وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے علاقے کی جزوی خودمختاری کو منسوخ کر کے نئی دہلی سے براہ راست کنٹرول نافذ کر دیا۔
لیکن گذشتہ سال، ہزاروں اضافی فوجی، بشمول خصوصی دستے، علاقے کے پہاڑی جنوب میں تعینات کیے گئے، جس کے بعد مسلح افراد کے سلسلہ وار مہلک حملے ہوئے تھے جن میں تین سال کے دوران 50 سے زائد انڈین فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
حکومت کے مطابق، کووڈ-19 وبا کے دوران بھی اسی طرح کا سابق فوجیوں کا رضاکارانہ پروگرام 2,500 سابق فوجیوں کے ساتھ لاگو کیا گیا تھا۔