محمد یونس خان ان 40 رہائشیوں میں شامل تھے جو گولہ باری شروع ہونے پر پناہ لینے کے لیے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں گنگل کے ایک خوبصورت پہاڑی گاؤں میں گائیوں کے ایک باڑے میں جمع ہوئے۔
یہ گاؤں شمالی کشمیر میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ انڈین کنٹرول والے علاقے میں واقع ہے۔ مرد، خواتین اور بچے تین میٹر بائے 4.2 میٹر (10 فٹ بائے 14 فٹ) کے اس چھوٹے سے باڑے میں پناہ لے کر بیٹھ گئے، کیونکہ انہیں محسوس ہوا کہ یہ اینٹوں اور سیمنٹ کے گھروں سے زیادہ محفوظ ہے۔
ایک دوسرے کے قریب سمٹ کر بیٹھے ہوئے، انہوں نے دونوں طرف سے داغے جانے والے گولوں کی سنسناہٹ اور دھماکوں کی آوازیں سنیں۔
جب باڑے کے بالکل باہر سے ایک زوردار آواز آئی تو سب نے سانس روک لی اور بدترین صورت حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
خوش قسمتی سے، گولہ نرم زمین پر گرا اور زمین کے چند فٹ نیچے ہی پھٹ گیا، جس سے ان کی جان بچ گئی۔
یونس، جو گولوں کے جانے اور آنے کی آوازوں میں فرق بتا سکتے تھے، نے باہر کے دھماکے کو ’ایسے جیسے بجلی زمین پر گری ہو‘ بیان کیا۔
سب کو ڈر تھا کہ انڈیا اور پاکستان میں جنگ چھڑ چکی ہے اور وہ رات زندہ نہیں گزار پائیں گے۔
یونس نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا: ’ہم اتنے خوفزدہ تھے کہ بچوں کے پیاس سے رونے کے باوجود دروازے سے چار فٹ کے فاصلے پر موجود پانی کے نلکے تک جانے کی ہمت نہیں کر رہے تھے۔‘
محمد شفیع اور ان کے اہل خانہ کے چار افراد کچن میں کھانا کھا رہے تھے جب اچانک دھماکوں کی آواز سن کر باہر بھاگے۔ وہ ابھی سڑک تک ہی پہنچے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک دھماکے نے اس کچن کو نقصان پہنچا دیا جس میں وہ کھانا کھا رہے تھے۔
وہ ڈھلوان سے نیچے بھاگے اور درختوں کے درمیان چھپ گئے۔
یہ آٹھ مئی کی رات تھی، اور گذشتہ شام کی نسبت گولہ باری میں شدت آچکی تھی۔
نسرینہ بیگم جلدی میں باہر نکلیں اور اپنے اس بیٹے کو پیچھے چھوڑ گئیں جسے خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت تھی، کیونکہ وہ اتنا بھاری تھا کہ اٹھا نہیں سکتی تھیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ پریشان رہیں لیکن صبح جب اپنے بیٹے کو صحیح سلامت گھر میں پایا تو سکون کا سانس لیا۔
گنگل کے زیادہ تر رہائشی تقریباً 40 کلومیٹر جنوب میں واقع بارہ مولہ شہر چلے گئے، جہاں کچھ لوگوں نے ٹی وی یا سوشل میڈیا پر اپنے گھروں کو تباہ ہوتے دیکھا۔
نصیر احمد، جو جموں و کشمیر پولیس کے افسر ہیں اور جنوبی کشمیر میں تعینات ہیں، کو فیس بک کے ذریعے پتا چلا کہ گولہ باری نے ان کے پرانپلن والے گھر کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ گھر وہاں موجود بڑے اور حیرت انگیز طور پر محفوظ اخروٹ کے درخت کے باعث فوراً پہچانا گیا۔
10 مئی کو جنگ بندی کے بعد گنگل کے رہائشی واپس آئے تاکہ نقصان کا جائزہ لے سکیں۔ انہوں نے اپنے گھروں کو چھروں سے چھلنی پایا۔ جن کے گھر محفوظ یا رہنے کے قابل تھے، انہوں نے اپنے بے گھر پڑوسیوں کو پناہ دی۔
تقریباً 160 کلومیٹر (100 میل) جنوب میں واقع معروف سیاحتی مقام پہلگام، جو عام طور پر ہلچل سے بھرپور ہوتا ہے، اب خاموش ہے اور وہاں کے رہائشی ایک الگ مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔
یہ وہی جگہ ہے جہاں 22 اپریل کو عسکریت پسندوں نے 26 سیاحوں کو مار دیا تھا، جو کہ اس کشیدہ علاقے میں شہریوں پر ہونے والا کئی سالوں کا سب سے بدترین حملہ تھا۔
پہلگام، جو عام طور پر مئی میں سیاحوں سے بھرا رہتا ہے، اب سنسان ہے۔ کاروبار بند ہیں اور جائے وقوع کے مقام سے 30 کلومیٹر (18 میل) کے دائرے میں موجود سیاحتی مقامات مقامی لوگوں اور سیاحوں دونوں کے لیے بند ہیں۔
گنگل میں واپس آ کر، یونس امن کے لیے دعا گو ہیں۔
انہوں نے کہا، ’اگر جھڑپیں جاری رہیں تو ہم کہاں جائیں گے؟ ڈرون تو کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں۔ جو لوگ جنگ چاہتے ہیں، انہوں نے کبھی جنگ لڑی یا دیکھی نہیں۔‘